وقت ہر زخم کا مرہم ہے

ایسا کچھ نہیں جتنا دل شکن بسا اوقات یہ احساس ہوتا ہے کہ آپ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں — تھراپی، ڈائری لکھنا، غور و فکر کرنا، ذہنی و جسمانی مشقیں مشکل گفتگوئیں — اور پھر بھی آپ کو وہی جذباتی تکلیف محسوس ہو۔ آپ نے کبھی کتابیں پڑھیں۔ کبھی حدود مقرر کرنے پر کام کیا۔ کبھی تھراپی میں خط لکھا اور پھر اسے رسم کے طور پر جلا دیا۔ پھر بھی، کہیں نا کہیں کسی لیول پر وہی کیفیت واپس آتی ہے، سینے میں جکڑن، وہ مانوس سا خوف، وہ یادیں جو اعصابی نظام کو جھنجھوڑ دیتی ہیں، اور وہ آنسو جو کسی ایک گانے پر بہہ نکلتے ہیں۔
آپ سوچتے ہیں: میرے ساتھ آخر مسئلہ کیا ہے؟ یہ سب ختم کیوں نہیں ہو جاتا؟ آپ خود کو بتاتے ہیں کہ آپ آگے بڑھ چکے ہیں، آپ خود پر بہت کام کر چکے ہیں۔ مگر آپ کا جسم شاید ابھی تک اس حقیقت کو تسلیم نہیں کر سکا ہوتا۔ تب لوگ کہتے ہیں: “بس وقت دو۔”وقت گزرنے کے ساتھ سب بھلا ہو جائے گا
اور اگر آپ میری طرح ہیں تو یہ جملہ آپ کو بہت سطحی یا پریشان کن محسوس ہوگا۔ تو کیا میں بس یہاں بیٹھ کر انتظار کروں؟جیسے جیسے وقت گزرے گا سب صحیح ہونے کا انتظار کرتی رہوں؟
میں عام طور پر بہت سی جگہوں پر وہ پہلی انسان ہوتی ہوں جو کہتی ہے کہ صرف وقت ہمیں شفا نہیں دیتا۔ بلکہ یہ اہم ہے کہ ہم اپنے وقت کا استعمال کیسے کرتے ہیں اور میں اب بھی اسی بات پر قائم ہوں لیکن مجھے یہ ماننا ہوگا کہ ہاں وقت اور اسپیس کی بھی ایک اپنی اہمیت ہے۔ وقت ہمیں فاصلے کا موقع دیتا ہے اس چیز، جگہ، شخص یا ان حالات و واقعات سے جن کے ساتھ ہماری اٹیچمنٹ اور سروائیول کی جنگ میں ہمارا سابقہ پیش آتا ہے اور جن سے ہمارا زخم وابستہ ہوتا ہے اور اس وقت کے بیتنے اور فاصلہ ملنے سے ہمیں سمجھنے کی اسپیس میسر آتی ہے کہ آخر کیا ہوا تھا، ہماری تکلیف کی حقیقت کیا تھی، ہماری طرف آنے والی تکلیف میں ہمارا کردار کیا تھا، ہمیں کیا ٹھیک کرنا ہے، ان غلطیوں کو کیسے ہم دوبارہ نہ دہرائیں جن میں ہم مبتلا رہ چکے، اور سب سے اہم یہ کہ ہم اس سب کا مطلب کیسے اخذ کریں جو ہم پر بیت چکا۔
یوں سمجھیں وقت اور فاصلہ ہمیں اس جنگل کو درختوں سے الگ دیکھنے کی صلاحیت دیتا ہے جہاں ہم رہ رہے ہوتے ہیں کیونکہ جب ہم جنگل میں رہا کرتے تھے تو جنگل اور درخت ایک ہی محسوس ہوتے تھے اور جب ہم نے وقت کے ساتھ وہاں سے نکل کر اس جگہ اور یہاں موجود ہر چیز ، یہاں درپیش آنے والے مصائب کو باہر سے جانچا تو ایک دوسرے زاویے سے دیکھنا شروع کیا۔ جنگل کو درختوں سے الگ کر کے دیکھا تو بہت کچھ مختلف دیکھنے لگا۔
ژاں پال سارتر نے لکھا: “آزادی یہ ہے کہ آپ اُن چیزوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں جو آپ کے ساتھ ہو چکی ہیں۔
اور میں نے پایا ہے کہ روح اور دل و دماغ پر لگے زخموں کے لیے نسخہ شفا بھی بہت حد تک یہی ہے
یعنی وہ آزادی کہ ہم اُن زخموں کے غلام نہ رہیں جو ہمیں چیر گئے تھے۔
لاہور شہر میں پیدا ہونے اور پلنے بڑھنے کے باوجود بھی مجھے برسوں اس شہر میں رہنے نے بے حد بے چین رکھا۔ اس شہر میں رہتے ہوئے ہمیشہ میں مضطرب رہی اور میرا آسمان کچھ زیادہ ہی اُداس رہتا۔ ہر وقت یہاں سے نکل کر کہیں دور جا کر بس جانے کے خیالات تنگ کرتے۔
دوپہر تک ایسا لگتا جیسے میں اپنی ہی کھال سے باہر نکل آؤں اور اُسے کسی چیز یا کسی پر دے ماروں۔
کیوں؟ کیونکہ وہ شہر مجھے میرے تعلقات میں میری مسلسل گھبراہٹ کے ادوار، اور اس اندھیرے کے ساتھ کنیکٹ رکھتا جو اُس وقت تک میرے اندر بسا رہا جب تک میں نے پہلی بار محسوس کیا کہ مجھے خود کا ہی کچھ علم نہیں تھا — نہ یہ کہ میں کون ہوں، نہ یہ کہ میں اپنی زندگی کے ساتھ کیا کر رہی ہوں۔ کس اندھیرے میں گم ہوں ۔
یہ مجھے اُس خود کی یاد دلاتا تھا جسے میں بھولنا چاہتی تھی —میری ذات کے وہ حصے جو کسی وقت میں کہیں گم تھے، اور میں غلط فیصلے کر رہی تھی۔
لیکن دو سال اسلام آباد میں بسنے بہت مہینے کراچی میں خود کے ساتھ وقت گزارتے رہنے کے بعد اب جب پچھلے کچھ مہینے مجھے مسلسل لاہور آنا جانا اور کچھ دن کے لیے قیام کرنا پڑا تو حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ مجھے کچھ بے چینی اور گھبراہٹ محسوس نہیں ہوئی۔ نہ اضطراب، نہ چڑچڑاپن، نہ بے چینی۔
ایسا لگا جیسے کسی نے میرے اندر کا وہ زخم مندمل کر دیا ہو۔ جیسے ڈینٹسٹ آپ کے مسوڑھوں پر سن کرنے والی دوا لگا دے تو کسی نا کسی درجے میں دباؤ  محسوس ہونے کے باوجود بھی درد نہیں ہوتا۔
مجھے اب بھی وہ دکھ انہی رشتوں سے مل کر، انہیں رستوں سے گزر کر یاد آتے رہے، جہاں سے میرے زخم جڑے تھے لیکن میں اب اُن زخموں میں نہیں رہ رہی تھی وہ اندھیرا چھٹ چکا تھا جیسا کہ کبھی میرے اندر ماضی میں ہوا کرتا تھا ۔ مجھے لگا میں اپنے زخموں سے کہیں اوپر اٹھ چکی تھی۔
برسوں لگے، تھراپی، خود کی تلاش اور کئی بار سخت اور تکلیف دہ ذاتی تبدیلیاں پیدا کرنے پر کام کرنے میں۔
لیکن جب میں نے اپنا کام مکمل کر لیا، تب وقت نے بھی اپنا کام کیا۔ اور اُس نے کیا۔اب میں وہی شہر جا سکتی ہوں، مکمل طور پر پُر سکون ہو کر بے اثر، لاتعلق، بلکہ تھوڑا سا مطمئن بھی۔ وقت اور فاصلہ ہمیں یہ موقع دیتا ہے کہ ہم درد کو حکمت میں تبدیل کریں۔ ہم جو کچھ جھیل چکے ہوں، اُس کو اپنے اندر پائیں تو اُسے خود پر حاوی نہ ہونے دیں۔
فلسفی ہائیڈیگر نے کہا تھا:” ہم وقت میں موجود نہیں ہم خود وقت ہیں۔”
ہمارا وجود یادوں، معنی، اور امیدوں کو اپنے اندر سموے ہوتا ہے۔ اسی لیے شفا کے ضمن میں اسپیس اور وقت درکار ہوتا ہے تا کہ ہم اپنے اندر کا یہ ساز و سامان تلاش کرتے ہوئے اسے استعمال میں لائیں۔
یہ صرف وقت گزرنے کا انتظار کرنے کی بات نہیں، بلکہ کچھ “بننے” کے لیے وقت کے استعمال کی بات بھی ہے۔
شفا جب ملتی ہے تو ہمیں وہاں بھی سکون سے بٹھاتی ہے جہاں ہم کبھی ٹوٹے تھے، بے چین تھے اور یہ ہمیں ماضی کی ہر توڑ پھوڑ کے باوجود بھی حال میں اپنی ذات میں مکمل محسوس ہونے دیتی ہے۔ اور سچ کہوں تو جب آپ اس احساس کو تجربہ کرتے ہیں یہ کسی جادو سے کم نہیں ہوتا۔ چنانچہ ہمیں غور و فکر کے لیے خود سے کچھ سوالات کرنے چاہئیں ۔
وہ کون سے مقامات، لوگ، یا یادیں ہیں جو آج بھی ہمیں جذباتی طور پر متاثر کرتی ہیں، اور کیوں؟
ہم نے ماضی میں خود پر گزرے ہوے تکلیف دہ لمحوں سے اپنے بارے میں کیا سیکھا؟
کیا ہم ہماری زندگی کے اُس حصے سے کوئی معنویت اخذ کر سکتے ہیں جو تکلیف دہ تھا؟
کیا ہم خود کو شفا کا وقت اور اپنے زخموں کو مندمل ہونے کی اسپیس دے رہے ہیں — یا ہم خود کو جلدی میں دھکیل رہے ہیں؟
اگر ہمارا موجودہ وقت آج ہم سے کچھ کہتا، تو وہ ہم سے کس چیز کو چھوڑنے کا مطالبہ کرتا؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top