تخلیقی اقلیت: روایت سے آزادی کا سفر

ڈاکٹر سارہ علی خان

ڈاکٹر خالد سہیل اور نعیم اشرف صاحب دونوں کو مبارکباد کہ ڈاکٹر صاحب جنہوں نے انتہائ انسان دوست کتاب Creative Minority لکھی جو اب اردو میں تخلیقی اقلیت کے نام سے نعیم اشرف صاحب کی بدولت میسر ہے۔ نعیم اشرف نے اس کمپلکس موضوع کی کتاب کوانتہائ سہل زبان میں اردو کے قلب میں ڈھالا ہے جو بیش قیمت عمل ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ فائدہ حاصل کر سکیں۔ مجھے یقین ہے کہ جیسے جیسے ذہنی صحت کی طرف آگاہی بڑھے گی اسی طرح اس کتاب کی اہمیت کا ادراک ہو گا ۔اس لیے میں نے ڈاکٹر صاحب سے بھی اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ ان کی کتاب کا آخری حصہ جو کہ تخلیقی اقلیت سے تعلق رکھنے والےان افرادکے بارے میں ہے، جنہوں نے اپنے ذہنی سکون کے لیے ڈاکٹر صاحب سے رجوع کیا، اس میں ممکن ہو تو اضافہ کریں کہ جب آپ اپنے جیسے لوگوںُ کی عزم کی تخلیق کی اپنے کام اور مقصد سے جنون کی کہانیاں پڑھتے ہیں تو وہ زیادہ پر اثر ہوتی ہیں۔

اس کتاب میں بہت سی سطریں ہیں جو آپکی توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں اور اس کے بعد لگتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو قلم توڑ دینا چاہیے جیسے کہ ایک جج فیصلہ سنا دینے کے بعد توڑ دیتا ہے۔ چند سطریں جنہوں نے مجھ پر گہرا اثر ڈالا، ان میں سے کچھ یہ ہیں: “واں گوں کی پیدائش سے ایک سال قبل ان کا بھائ فوت ہو گیاتھا جس کا نام بھی ونسنٹ تھا۔ انسان سوچتا ہے کہ یہ بچہ بڑا ہو کر جب اپنے بھائی کی قبر دیکھنے گیا ہو گا اور کتبے ہر اپنا نام لکھا دیکھا ہو گا تو اس نے کیسا محسوس کیا ہو گا “ اس کو پڑھتے ہوئے مجھے اسکے برعکس خیال آیا کہ ہمارے تو بچوں کو زبردستی میت اور قبرستان لے جایا جاتا ہے اس بات کا خیال کیے بغیر کہ بچوں کے ذہن پر کیا اثرات ہوں گے اور خاص کر حساس بچوںُ کے دماغ پر۔ اسی طرح اس کتاب کے پہلے صحفے پر درج ان کا اندیشہ ملاحظہ فرمائیے:
باہر کے اس شور میں خالد
مجھ کو ڈر ہے
اندر کی موسیقی اک دن
مرجھا جاۓ گی

جہاں انہوں نے اپنے لیے اس اندیشے کو غلط ثابت کیا ہے وہیں پر میرے خیال میں یہ کتاب لکھ کر انہوں نے تمام تخلیقی اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد کو اس زندگی کی راہ دکھائی ہے جس سے وہ اپنے اندر کی موسیقی کو زندہ رکھ سکیں اور اس کے ردھم پر اپنی تخلیق کا رقص جاری رکھ سکیں۔

تخلیقیی شخصیت اور اسکی قیمت
اس سب میں مجھے احساس ہے کہ اس موسیقی کو زندہ رکھنے کی قیمت وہ تمام اشخاص جو تخلیقی اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں چکاتے ہیں اور خالد سہیل نے بھی اس کی قیمت چکائ ہے کیونکہ وہ خود اس اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ سب کہنا میرے لیے آسان نہیں کیونکہ میں نے اس کی قیمت اپنے والد کو چکاتے دیکھا ہے۔ یہ قیمت ان تخلیقی شخصیات کی کامیابی کے بعد ان کے اردگرد کے لوگوں اور دوست احباب کو شاید معمولی محسوس ہو لیکن یہ افراد خود اور ان کے پیار کرنے والے اس کی ذہنی، جسمانی اور جذباتی قیمت سے آگاہ ہوتے ہیں۔ اس لیے میں نے جب اس کتاب کا باب “تخلیقیات اور جنسیات” پڑھا تو ڈاکٹر صاحب کو کہا اس میں اولادیات کو بھی شامل کرنا چاہیے کہ صرف ان شخصیات کی زندگی میں محبت یا ازداجی تعلق تک ان کی تخلیق کے اثرات محدود نہیں رہتے بلکہ ان کی اولاد تک جاتے ہیں اور اس کی جھلک نیلسن منڈیلا کے باب میں ہمیں ملتی ہے کہ یہ دکھ اور خوشی اکٹھی ہو جاتی ہے کہ آپکے ماں یا باپ سے صرف آپ نہیں اور بھی لوگ محبت کرتے ہیں لیکن یہ دکھ کہ آپ اپنے باپ یا ماں کو دوسرے کے ساتھ شئیر کر رہے ہیں اور وہ صرف آپکے بارے میں نہیں سوچتے بلکہ اوروں کے لیے بھی ان کے دل میں اتنی محبت ہے جتنی آپکے لیے۔
یہ بہت بڑے المیے کو جنم دیتا ہے کیونکہ آپ ان کو اس تخلیقی جنگ میں زخم کھاتا اور گھاؤ لگتا دیکھتے ہیں اور ان کے جنون کے آگے کچھ کر نہیں پاتے صرف ان کا ساتھ خاموش رہ کر یا تسلی دے کر ہی دے پاتے ہیں۔

تخلیقی شخصیات کی جدوجہد: ایک المیہ
میرے الفاظ اس تکلیف کو بیان نہیں کر سکتے جو میں یہ سب کہتے ہوۓ محسوس کر رہی ہوں کہ میں نے اپنے والد ڈاکٹر کرامت علی جو اس سب سے گزرتے دیکھا ہے۔ وہ جب Vanderbilt سے اکنامکس میں ڈگری کر کے لوٹے تو واپس آنے کی ان پر کوئی پابندی نہیں تھی کہ وہ حکومت پاکستان کو یہ کہہ کر ان کا اسکالرشپ واپس کر چکے تھے کہ اُن کو یورنیوسٹی کی طرف سے اسکالرشپ مل گیا ہے اور ان کی خواہش ہے کہ یہ کسی اور مستحق طالب علم کو دے دیا جاۓ۔ علاوہ ازیں، ان کے پاس اسی یورنیورسٹی کا جاب لیٹیر بھی تھا جسے وہ یہ کہہ کر منع کر آۓ تھے کہ وہ اپنے شہر ملتان میں ایک ایسا اکنامکس ریسرچ سینٹیر (بہاؤالدین زکریا یورنیوسٹی میں جس کا اسی سال قیام ہوا تھا) بنانا چاہتے تھے جہاں پر عالمی سطح کا اکنامکس میں ریسرچ کا کام ہو۔ مقصد یہ تھا کہ اس کے ذریعے ملتان میں تعلیم کے میعار کو بہتر کیا جا سکے اور جنوبی پنجاب کے پسماندہ طبقات( کسان اور بھٹے مزدروں) تک تعلیم کی سہولیات کو فراہم کر کے ان کو ملتان کے جاگیردارانن اور سرمایادارانہ نظام سے چھٹکارا دلایا جا سکے۔ امریکہ جانے سے پہلے وہ اور میرے تایا اپنے دوستوں کے ہمراہ بھٹہ مزدوروں کی تنظیم سازی کے کام میں مصروف عمل رہے تھے لیکن ان کی واپسی کے بعد ان کو تین سال تک اپائٹمنٹ کے باوجود یورنیوسٹی جوائن نہیں کرنے دی گئ کہ جماعت اسلامی کو ان کا وجود ناگوار تھا اور جب جوائن کر لی تو میں نے ایک دن اپنے والد کو سکون میں نہیں دیکھا لیکن وہ ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھے۔ اسی ذہنی پسماندگی کے گڑھ میں بیٹھ کر وہ غریبوں کی بات کرتے اور لکھتے اور ریسرچ شائع کرواتے۔ ان کی دونوں کتابیں ریسرچ پیپرز، آرٹیکل جو انہوں نے ایم فل پی ایچ ڈی کے پیپر سپروائز کیے، سب ان کے اسی مقصد کے گرد گھومتے تھے۔ ان کو Poor man Economist کہا گیا لیکن تکالیف اور مشکلات کے جس پہاڑ کا ان کو اس یونیوسٹی میں سامنا تھا اس نے ان کو جوانی میں ذیابطیس اور امراض قلب کا تحفہ ہمارے گھر میں break ins اور مسلسل threat letters کی صورت میں ملا۔ میری اماں نے تو انہیں کبھی کچھ نہیں کہا لیکن میں ان کے ساتھ اس بات پر ناخوش تھی ،ہمیشہ ملک چھوڑنے کا مشورہ دیتی لیکن وہ اس کے لیے تیار نہیں تھے۔ لیکن مجھے ان کی یونیورسٹی اور پاکستان کی طرف سے کی گئ بےقدری پر بے پناہ دکھ تھا۔

قومی سطح پر تخلیقی افراد کی ناقدری
یہ دکھ اس کتاب کے باب “ ڈاکٹر عبداالسلام اپنے دیس کا بے تو قیر سائنسدان” پڑھنے تک برقرار تھا۔ اس کو میں نے کئ دفعہ پڑھا کہ ڈاکٹر سلام کو جس یونیوسٹی میں جبرا لیکچر دینے سے روکا گیا وہ زکریا یونیوسٹی تھی جہاں پر ہر روز میرے بابا کو ایک نئی مزاحمت کا سامنا تھا۔ وہی یونیورسٹی جہاں کے جنید حفیظ پچھلے بارہ سال سے ساہیوال جیل میں توہین مذہب کے نام پر پابندِ سلاسل ہیں اور کوئ شنوائ نہیں۔ اسی یونیورسٹی کو مذہبی انتہا پسندی کی بجاۓ روشنی خیالی کا گڑھ بنایا جاتا تو آج جنوبی پنجاب جہالت پسماندگی اور صحت کے وسائل کی عدم دستیابی کا شکار نہ ہوتا۔ مجھے پہلی بار سمجھ آیا کہ تخلیقی اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد صرف ذہین نہیں ہوتے وہ دردمند دل اور حساس دماغ کے حامل ہوتے ہیں۔ اپنے ارد گرد کے لوگوں کے دکھ درد کو زیادہ گہرائ سے محسوس کرتے ہیں اور اس کو بدلنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں لیکن جو محبت ڈاکٹر سلام نے اپنے دل میں پاکستان کے لیے محسوس کی وہ ان کے بچے نہیں کر سکتے کیونکہ انہوں نے اس تکلیف اور نفرت کو دیکھا جو ان کے والد نے برداشت کی، اپنی محنت کے صلے میں۔ اس کے لیے وہ کبھی معاف نہیں کریں گے اور یہ ہر تخلیقی شخصیت کے ساتھ جڑے محبت کے رشتوں کے دل میں ہوتا ہے۔ وہ اپنے پیارے کو یہ سب تکالیف برداشت کرتا دیکھتے ہیں لیکن اس درد کے ساتھ رہنا سیکھ جاتے ہیں اور پہلی دفعہ مجھے اس احساس کا ادراک ہوا جو زکریا یونیورسٹی اور ملتان پاکستان کا سن کر میرے دل میں ابھرتا ہے۔ مجھے والد صاحب کے فیصلے ،اپنے جذبات اور ساری عمر مخلص اور زمانے سے آگے کی سوچ رکھ کے بھی معتوب رہنے کا دکھ کیا ہوتا ہے، یہ سب اسی وقت سمجھ میں آیا ۔لیکن صرف ڈاکٹر سلام ہی نہیں جن کے کام اور شخصیت کو مذہبی انتہا پسندی کی طرف سے چیلینجز کا سامنا کرنا پڑا بلکہ اس کتاب میں سواۓ چند ایک تخلیقی شخصیات کے سب اس مسئلے سے دوچار رہے یہاں تک کہ اقبال بھی ، اس لیے مجھے ڈاکٹر صاحب کی یہ آبزرویشن اقبال کے حوالے سے بہت پسند آئی کہ اقبال زندہ ہوتے تو مذہب اور ریاست کے کمبنیشن نے جو تباہی پاکستان میں برپا کی ہے اس پر ان کا کیا خیال ہوتا۔ ان کے خیالات جاننے سے پہلے ہی ان پر توہین مذہب کا چارج لگا ہونا تھا کہ ہم دیکھ رہیے ہیں کہ اس چارج کو کس خوفناک طریقے سے لوگوں کی زندگیاں تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا اور ایک وکیل کس ڈھٹائ سے اس ہنی ٹریپ مکس بلاسفیمی کو نوجوانوں کی زندگیاں اور اپنی جیبیں بھرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ اس لیے صرف ڈارون یا گلیلیو اس کی زد میں نہیں تھے بلکہ یہ آج بھی جاری و ساری ہےکہ کچھ دن پہلے میں نیل ٹائ سن کا انٹرویو سن رہی تھی، سوالات ارتقا بگ بینگ سے ہوتے ہوۓ اس چیز پر منتحج ہوۓ کہ آپ خدا کو مانتے ہیں یا نہیں؟ وہ لمحہ میرے لیے حیران کر دینے والا تھا کہ نیل کو بھی اس بات پر خاموشی اختیار کرنا پڑی کہ وہ کسی قسم کا کوئ لیبل نہیں چاہتے کہ جس کی وجہ سے ان سے سے سائنس یا ریسرچ کے اوپر لعن طعن کی جا سکے۔ اس لیے جس مذہبی انتہا پسندی کا ذکر بارہا اس کتاب میں کیا گیا وہ اپنی ماڈرن فارم میں آج بھی اسی باربرزم سے موجود ہے اور ہم آج بھی اتنا ہی متشدد ہیں۔

علمی وسعت اور فکری غیر جانبداری
اس کتاب کو پڑھتے ہوۓ مجھے ڈاکٹر صاحب کی وسیع کتب بینی اور ہر قسم کے طبقہ ہاۓ فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات میں دلچسپی کا علم ہوا لیکن جتنا وسیع انہوں نے ان شخصیات کا مطالعہ کیا وہ میرے لیے حیران کن تھا۔ کتاب پڑھتے ہوۓ ہر شخصیت پر اتنی تفصیل ہے کہ آپکو لگتا ہے کہ کتاب نہیں Chat GPT کی سائٹ کھولی ہوئ ہے۔ عموما لوگوں کو جن شخصیات یا جن موضوعات میں دلچسپی ہوتی ہے، اس میں ان کا علم بھی زیادہ ہوتا ہے، لیکن ڈاکٹر صاحب ہر طرح کی شخصیت کے بارے میں ریسرچ کر کے ایک نیوٹرل راۓ دینے کی حتی الوسیع کوشش کرتے ہیں اور رائٹ لیفٹ سینٹر سب کے غصے سے ایک جیسا لطف اندوز ہوتے ہیں۔ مجھے اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب انہوں نے بطور خاص مسکراتے ہوۓ مجھے یہ تاکید کی کہ آپکے کارل مارکس اور نیلسن منڈیلا کی رومانوی زندگی پر بھی باب ہیں لیکن اس وقت تک میں Agree to disagree کا فارمولا سیکھ چکی تھی اور میں نے ان کو بتایا کہ نیلسن منڈیلا کی تیسری شادی کی خبریں تصویریں کئ مہینے تک میری توجہ کا مرکز رہیں تھیں اور مجھے ان کی رومانوی زندگی سے کوئ خاص اختلاف نہیں۔خوب سے خوب تر کی جستجو رومانوی زندگی مرد اور عورت دونوں کا حق ہے اور میں شکر گزار ہوں کہ وہ یہیں رک گئے ورنہ معلومات رومانویہ کی یہ ایک چھوٹی سی جھلک ہے کہ جب آپ کسی بھی شخصیت کے اوپر اتنی گہری ریسرچ کرتے ہیں تو ہر طرح کی معلومات آپکے پاس ہوتی ہے۔

تخلیقی اقلیت کی حساسیت اور معاشرتی رویہ
لیکن اس کتاب کے سب سے اہم ابواب “تخلیقی بچے روایتی خاندان اور درس گاہیں“ اور “روایتی کالج یورنیوسٹیاں اور تخلیقی طالب علم“ ہیں کہ یہ اس سٹیج کے بارے میں ہیں کہ جب اگر آپ تخلیقی اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں تو سواۓ چند ایک کے ہر بڑا شخص آپکو گدھا سمجھتا ہے اور روایت کے راستے پر ہانکنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس میں سب سے تکلیف دہ امر یہ ہوتا ہے کہ یہ بچہ اگر تھوڑا سے بھی فرمانبرداری کے جذبے سے مغلوب ہوجائیں اور روایت کے راستے پر چل پڑیں تو خود ساری عمر آگ میں جلتے ہیں۔ وہ بچے خوش قسمت ہوتے ہیں جن کو ایسے والدین رشتے دار اساتذہ کی رہنمائ اور حفاظت دستیاب ہوں جو ان کی صلاحیتوں کو پہچانیں۔ شاید ڈاکٹر صاحب نے یہ مضمون اتنے جامع اس لیے بھی لکھے ہیں کہ انہوں نے خود نوجوانی میں اپنے چچا عارف عبدالمتین کے ذریعے اپنے اندر کے تخلیق کار کو پہچانا اور روایتی درسگاہ میں اور روایتی خاندان میں رہ کر بھی اپنی تخلیقی صلاحتیں برقرار رکھیں اور کم عرصے میں ہی ایک روایتی مذہبی ملک سے غیر روایتی غیر مذہبی ملک کی طرف ہجرت کی۔ اس کتاب کو آپ جتنا خالد سہیل کی شخصیت اور ان کی ذات کے ارتقا کے آئینے میں دیکھیں یہ اتنی دلچسپ ہوتی جاتی ہے کیونکہ یہ ان کی آپ بیتی بھی ہے ،فلسفہ بھی اور غیر روایتی اقلیت کی نفسیات کا تجزیہ بھی ہے۔ ہر کوئ ان جتنا بہادر نہیں ہوتا کہ اس کو بیس بائیس سال کی عمر میں پوری زندگی کے غیر روایتی روڈ میپ کا علم ہو۔ میرے لیے یہ بات بہت دلچسپ تھی کہ تخلیق کار بچوں کی ساری حسیں باقی روایتی بچوں سے زیادہ بیدار ہوتی ہیں اس لیے ہلکی سی تبدیلی موسم ، کھانے کا گرم ٹھنڈا ان کو زیادہ محسوس ئوتا ہے اور وہ رو پڑتے ہیں۔ جب کہ میں نے اپنے اردگرد یہ جملے کثرت سے سنے ارے تم تو زیادہ ہی sensitive ہو، یہ اچھی بات نہیں شیر بنو شیر حالانکہ اپنی دفعہ میں یہ شیر چڑیا گھر بیٹھا ہوتا ہے۔ اس حوالے سے تخلیقی صلاحیتوں کے مالک افراد کی نہ صرف حساسیت چیزوں کی طرف مختلف ہوتی ہے بلکہ ان کے ایموشنل زونز بھی الگ ہوتے ہیں۔ ان کا گرین زون ان کی تخلیق کا وقت ہوتا ہے اور ییلو ریڈ جب وہ معاشرہ کے بناۓ رسم و رواج یا روایات کو نبھاتے ہوۓ اپنے آپکو negate کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں سنگا سلوا کمار کی کہانی بہت دلچسپ ہے۔ انہوں نے اتنی سچائ سے ہر چیز کو بیان کیا ہے کہ آپ اس تکلیف کو اپنے دل میں محسوس کرنےلگتے ہیں جو انہوں نے سیلف ڈسکوری کے عمل میں اٹھائی ہوتی ہے۔کیسے یہ عمل ایک مہاجر بچے کے لیے زیادہ کٹھن ہے کہ پودے کو بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ لگائیں تو اسکو جڑیں پکڑنے میں وقت لگتا ہے اور ہم اپنے بچوں کو یہ موقع دینے سے قاصر اس لیے رہتے ہیں کہ ہم باہر کے لوگوں کے ساتھ مقابلے میں رہتے ہیں اور اپنے بچوں کو اس عمل میں کھو دیتے ہیں۔ مجھے اس امر کا احساس اس لیے بھی زیادہ ہے کیونکہ روایتی سیٹ اپ میں مجھے لگتا ہے کہ میرا دم گھٹ جاۓ گا اور اپنے میڈیکل کالج کے روایتی ماحول میں مجھے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے میں خود پریشر ککر بن گئ ہوں۔ نفرت اور بغاوت نے میرے اندر اپنے ماحول کی طرف جنم لیا مجھے ہر روایتی کام اور طریقے سے نفرت تھی اور وقت کے ساتھ میں نے سمجھا کہ میرا سکون میرے تخلیقی عمل میں ہے جس میں میں خود کے ساتھ تنہا اور مکمل ہوتی ہوں۔

تخلیقی اقلیت کا گرین زون
بہت زیادہ لوگ یا بڑی بڑی محفلیں اور مالز میرے لیے گبھراہٹ کا باعث بنتے ہیں۔ اس لیے کہ تخلیقی اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد کا گرین زون یا ریڈ ییلو زون روایتی افراد سے مختلف ہے۔ تنہائ اور ہم خیال لوگوں کی رفاقت ان کے لیے نعمت ہے۔ تخلیق جان جوکھوں کا کام ہے اس لیے اس کتاب کے آخری باب جن میں ان لوگوں کی کہانیاں جو خود اس سیلف ڈسکوری کے عمل سے گزرے ہیں اور انٹرویو اور خود ڈاکٹر سہیل کا اس حوالے سے انٹرویو بہت اہمیت کے حامل ہیں لیکن سب سے اہم سوالنامہ ہے جو تخلیقی اقلیت افرد کو اپنا آپ ڈسکور کرنے اور خود شناسی کے عمل کو آسان بنانے کے لیے ڈاکٹر خالد سہیل نے مرتب کیا ہے ۔ تخلیقی اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے یہ سوالات بہت اہم ہیں کہ یہ تمام تخلیقی افراد کے سیلف ڈسکوری کے عمل کے میپ کی آؤٹ لائن ہے اور اس سنہری اصول کی طرف اشارہ ہے کہ سب سے پہلا قدم اس سفر میں اپنے آپ کی acceptance ہے کہ اگر آپ تخلیقی اقلیت سے تعلق رکھتے ہوۓ بھی روایتی اکثریت کو خوش کرنے کے لیے روایت کے راستے پر چلیں گے تو خود کرب سے بھسم ہو جائیں گے۔

تمہارے بس میں یہ کب ہے
۔۔۔۔..
تم !!
ہماری لکھنے والی انگلیوں کی
شمعیں گل کردو
ہمارے لفظ
دیواروں میں چنوا دو
ہمارے نام کے اوپلے بناو
اپنی دیواروں پہ تھوپو
اپنے چولہوں میں جلا دو
سب تمہارے بس میں ہے
ہم جانتے ہیں ،مانتے ہیں
سب تمہارے بس میں ہے
لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری سوچ پر تالا لگاتے اور
اپنی چا ہبوں کے بھاری گچھے میں
یہ چابی ڈال کے
مٹھی دبا لیتے
کہیں تہہ میں سمندر کی اچھال آ تے
تمہارے بس میں یہ کب ہے ؟؟
نسیم سید

1 Comment

  • Khushal Das

    Good one❤️

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top