#NAAYEKHWAAB

#NAAYEKHWAAB

Our Testimonial

Sibgah Abbas

Joining the Green Zone training program has been extremely beneficial for me. The most important thing I learned from this training is how to build boundaries. Previously, due to the lack of boundaries, I had suffered a lot and was still suffering because I was unable to tell people that they couldn’t do certain things to me. But in reality, it was my own fault for giving them so much space, which was greatly disturbing my mental peace. However, thanks to the Green Zone training, I have learned to set boundaries and I’m trying to implement this in my life. I hope to successfully implement this and protect my personality from being negatively impacted. I can already see the positive effects of setting boundaries.

Faiqa Nasir

 زندگی کے پیچیدہ راستے اکثر انسان کو الجھنوں میں ڈال دیتے ہیں، اور کچھ ایسا ہی میرے ساتھ بھی ہوا۔ میں ایک گمنام وجود کی مانند اپنی راہوں میں بھٹک رہی تھی۔ میرے دل میں ایک انجان خلا تھا، جو اکثر میرے ذہن کو اپنی گرفت میں لے لیتا۔ لیکن اس خلا کو سمجھنے یا بھرنے کی ہمت مجھ میں کبھی نہ ہوئی۔
میری زندگی ایک عام عورت کی کہانی تھی۔ لیکن اندر ہی اندر، میں جانتی تھی کہ میری زندگی میں کچھ کمی ہے۔ یہ کمی شاید خود کو نہ سمجھنے کی تھی، یا شاید ان خوابوں کی، جو میں نے کہیں بھلا دیے تھے۔
ایک دن، ایک پرانی دوست نے مجھ سے رابطہ کیا اور گرین زون لیونگ پروگرام کے بارے میں بتایا۔ پہلے تو میں نے اسے محض ایک اور وقت ضائع کرنے کا ذریعہ سمجھا، لیکن اس کے اصرار پر میں نے شرکت کا فیصلہ کیا۔
پروگرام کے پہلے دن، میں نے سوچا کہ شاید یہ میرے لیے مناسب نہیں ہے۔ لیکن جیسے جیسے پروگرام کا آغاز ہوا، میں نے محسوس کیا کہ یہ تجربہ میری زندگی کو بدل سکتا ہے۔ ٹرینر نے ہم سب سے کہا کہ ہم اپنی زندگی کے بارے میں سوچیں، اپنی کمزوریوں کو قبول کریں، اور ان پر قابو پانے کے راستے تلاش کریں۔
پروگرام کے دوران ایک سرگرمی نے میری توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ ہمیں کہا گیا کہ ہم اپنی روزمرہ زندگی کی عادات کے بارے میں سوچیں اور لکھیں کہ ان میں سے کون سی ہمیں مضبوط بناتی ہیں اور کون سی ہمیں پیچھے دھکیلتی ہیں۔ یہ سوال میرے لیے بالکل نیا تھا، کیونکہ میں نے کبھی اپنی طاقتوں پر غور نہیں کیا تھا۔ جیسے جیسے میں نے اپنی روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی کامیابیوں کو یاد کیا، میں نے محسوس کیا کہ میرے اندر صبر، منظم رہنے کی عادت، اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کی دیکھ بھال کرنے کی صلاحیت جیسی طاقتیں موجود ہیں، جو میری شخصیت کو مضبوط بناتی ہیں۔ ان سب پر غور کرتے ہوئے، مجھے اپنی ذات کے وہ پہلو نظر آئے جنہیں میں نے کبھی اہمیت نہیں دی تھی۔
ان دنوں میں، میں نے اپنی زندگی کو ایک نئی نظر سے دیکھا۔ میں نے اپنی غلطیوں کو قبول کیا، اور سب سے بڑی بات یہ کہ میں نے خود کو معاف کیا۔ یہ احساس ایک نئی روشنی کی مانند تھا، جیسے کسی اندھیری رات میں چراغ جل اٹھے ہوں۔
گرین زون لیونگ پروگرام نے مجھے یہ سکھایا کہ زندگی میں سب سے بڑی جیت یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو سمجھیں اور اپنی ذات سے محبت کریں۔ میں نے اپنی اندر کی خامیوں کو خوبصورتی میں بدلنا سیکھا۔
آج، میں ایک مختلف عورت ہوں۔ میں اپنی زندگی سے مطمئن ہوں، اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کو برابر اہمیت دیتی ہوں، اور ہر دن کو نئی امید کے ساتھ گزارتی ہوں۔ میں گرین زون کمیونٹی کی شکر گزار ہوں، جنہوں نے مجھے میری زندگی کا سب سے قیمتی سبق سکھایا۔
یہ سفر نہ صرف میرے لیے، بلکہ ہر اس عورت کے لیے ہے جو اپنی زندگی میں روشنی تلاش کر رہی ہو۔ زندگی کے سفر میں، خود کو سمجھنا ہی سب سے بڑی کامیابی ہے

Fatima Zahra

لوگ بھی وہی رہتے ہیں، حالات وہی ہوتے ہیں۔ آپ کے ارد گرد کا ماحول بھی پہلے جیسا ہی رہتا ہے۔ تبدیل ہوتا ہے تو ہمارا انہیں دیکھنے کا انداز اور یہی وہ اہم ترین پہلو ہے جس کی اہمیت اور ضرورت میں مقدس سے ملنے کے بعد سمجھ پائی۔ کسی بھی طرح کے حالات و واقعات سے کیا نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں یہ ہمارا نقطہ نظر طے کرتا ہے۔ یہ اس قدر اہم ہے کہ چاہیں تو آپ ذرا ذرا سی باتوں کو ساری زندگی خود پہ سوار کیے رکھیں اور چاہیں تو شدید گھٹن زدہ ماحول میں رہنے کے باوجود اپنے اندر کشادگی پیدا کرنے کے قابل بنیں۔ ایسی کشادگی جو صحت مند زندگی کی ضامن ہے۔
میرا گرین زون سے پہلا اور بہت خوبصورت تعارف ڈاکٹر خالد سہیل اور دیگر سپیکرز کے ساتھ ایک گوگل میٹنگ تھی۔ اپنے متعلق میں یہ بتانا چاہوں گی کہ آغاز سے اکیڈمک کیرئیر بہت اچھا رہا۔ ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی گاہے گاہے شریک ہوتے رہے لیکن میڑک اور ایف ایس سی کے چار سال جو کسی بھی طالب علم کےلیے بہترین یادگار ہوتے ہیں وہ دھند کی لپیٹ میں گزرے۔ ایک ایسی دھند جس میں اچھے دوست اور دوستانہ مزاج کے اساتذہ رہے بھی تو نا ہونے کے برابر تھے۔ یہاں سے ایک عجیب تناؤ جس کے پیچھے بہت سارے عوامل رہے لیکن ان میں سب سے اہم گورنمنٹ اداروں کا مخصوص ماحول، خاصے سمجھدار اساتذہ کی جانب سے فیورٹزم، ججمنٹل رویے، طنز اور استہزائیہ لہجوں کو دیکھتے اور ان سے نمٹتے ہوئے چند ایک اچھی یادوں کے ساتھ یہ چار سال جیسے مکمل ہوئے پہلی بار میں نے اس کے متعلق مقدس سے بات کی تھی۔ یہ سب باتیں بہت سے لوگوں کے لیے معمولی ہو سکتی ہیں لیکن ایک طالب علم کے لیے، جب وہ ایک مخصوص ماحول میں رہا۔ یہی مسئلے بہت بڑے بن جاتے ہیں جن سے وہ اُس وقت نمٹ رہا ہوتا ہے۔ خاص کر تب جب ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کوئی رہنمائی میسر نہ ہو۔ ایسے چھوٹے چھوٹے واقعات جو آپ کے اپنی ذات پہ کیے جانے والے بھرپور اعتماد کو حددرجہ متاثر کر دیں۔ آپ کی قوت فیصلہ کو ضبط کر لیں۔ آپ کا اپنے اوپر ہی اعتماد کم ہو جائے۔ میری ایک استاد کے الفاظ آج بھی یاد آئیں تو ویسے ہی کاٹ دار محسوس ہوتے ہیں جب انہوں نے میرے ہاتھ سے میری لکھی ایک تحریر چھین کر کلاس میں بلند آواز سے کہے تھے۔ ایسے بہت سے چھوٹے بڑے واقعات جنہیں بھلانے کے لیے یا ان سے مطلوبہ نتائج اخذ کرنے کےلیے مخصوص طرز سے سمجھانے والا انسان جب تک میسر نہ ہو یہ ہمیں مسلسل تنگ کیے رکھتی ہیں اور ہماری شخصیت پہ بھی گہری چھاپ چھوڑ جاتی ہیں۔ ایف ایس سی کا دورانیہ بھی کچھ یونہی گزرا۔ یکسانیت سے بھرپور یہ دو سال جہاں اکیلے رہنے کی عادت جو گریجویشن میں بھی ساتھ نہ چھوڑ سکی کافی نقصان دہ ثابت ہوئی۔ یہ بات بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عمر کا کوئی بھی حصہ ہو آپ کو اچھے لوگوں کی اور اچھے دوستوں کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔ آج کل خود اپنے آپ تک محدود رہنا (introvert) ہونا ایک فیشن کے طور پہ نوجوان طبقے میں بہت نمایاں چیز سمجھا جاتا ہے لیکن اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کیا اپ اپنے اپ کو بڑھنے کا وہ موقع نہیں دے پاتے جو کہ آپ دوسروں کی سپورٹ اور توجہ سے دے سکتے ہیں۔ اس کے بعد 2023 تک مسلسل ناخوشگوار حالات کا سامنا رہا اور اس دوران مجھے انسانی نفسیات سمجھنے میں بہت مدد ملی لیکن یہ وقت اتنا ہی مشکل اور چیلنجگ بھی رہا کہ اس دوران مختلف رویوں سے نمٹنے کی صلاحیت مفقود تھی۔ اس وقت سب سے اہم فیصلہ کمفرٹ زون سے نکل جانے کا کیا جس پہ الحمدللہ میں آج تک قائم ہوں۔ 2023 وسط سے آخر تک مشکل ترین سال رہا۔ میں اس چھ ماہ کے عرصے کو اپنا ریڈ زون کہوں تو بالکل غلط نہیں ہوگا۔ 2024 میں پہلی بار میں نے ایک بولڈ سٹیپ لیا اور ہر ماہ کے آغاز میں تیس دنوں میں مکمل کیے جانے والے ایمز اور گولز لکھے۔ پھر مہینے کے آخر میں اپنے آپ کا تنقیدی جائزہ لینا، جانچنا ایک ایسا تجربہ تھا جس نے میرے اندر ایک نئی طاقت بھر دی اور پھر میں نے باقاعدگی سے ڈائری لکھنا شروع کردی۔ ایک ایسی عادت تھی جس نے مجھے مکمل طور پر تبدیل کر دیا۔ میرا وقت زیادہ پراڈکٹیو گزرنے لگا۔

سوال یہ ہے کہ ان سب میں گرین زون اور مقدس مجید نے کیا کردار ادا کیا۔ یہی بات بتانے کے لیے آپ سب کو یہ طویل مختصر تحریر پڑھنے کی زحمت دی۔ اگر میں ان ساری چھوٹی چھوٹی چیزوں پہ جو مجھے ایک لمبے عرصے سے تنگ کر رہی تھیں۔ وہ سوال جو میرے ذہن میں خود اپنے متعلق تھے۔ وہ لیبلز جو مجھ پہ لگے ہوئے تھے ان کے بارے میں مقدس سے بات نہ کرتی اور
Channelization of random thoughts , Selective ignorance , Different emotional zones, Clarity in thinking patterns
وغیرہ نہ سیکھتی، تو کبھی بھی ان غیر ضروری چیزوں کے بارے میں پتہ نہ چلتا جن کے متعلق میں بلاوجہ پریشانی ہوتی رہی۔ ایک اور اہم ترین مسئلہ یہ تھا کہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہونے کے باعث مجھے بی ایس کے چوتھے سیمسٹر میں محسوس ہوا کہ میں گریجویشن کے متعلق راہنمائی نہ ہونے کے باعث محدود اداروں اور تین سے چار میسر مضامین کی فہرست میں سے بظاہر اپنے لیے بہترین مضمون چننے کے باوجود مضمون اور ماحول دونوں سے ہی مطمئن نہیں۔ اور اس کی اہم وجوہات مکمل راہنمائی نہ ہونا، گریجوئیشن کے متعلق محدود معلومات اور چناؤ کے دوران دو مضامین میں سے ایک چن لینے کا محدود سا اختیار اور لاعلمی کے باعث اہلیت کے باوجود کسی بڑے ادارے میں نہ جا پانا وغیرہ ہیں۔ جب میں نے دوسرے شہروں کے بہترین اداروں میں بی ایس کے مضامین میں تنوع دیکھا مجھے احساس ہوا کہ کیمسٹری اور ان چند مضامین کے علاوہ ایسا بہت کچھ تھا جو بروقت پتہ چلتا تو اس کے متعلق سوچا جا سکتا تھا۔ اس بارے میں مقدس سے بات ہوئی اور جس طرح اس کا محتاط حل نکالا گیا اس چیز نے مجھے حوصلہ دیا کہ ابھی بھی بہتری کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ یہاں سے تبدیلی کا رستہ بھی نکالا جا سکتا ہے۔ یہ تحریر شاید ان لوگوں کے لیے اس طرح کارآمد نہ ہو جو ایک لمبا عرصہ پریکٹیکل لائف میں گزار چکے ہیں لیکن یہ تحریر ان سب کے لیے ضرور ایک سبق ہے۔ جو اب اپنی زندگی شروع کرنے والے ہیں اور پریکٹیکل لائف میں قدم رکھنے والے ہیں۔

اس سب کا خلاصہ یہ ہے کہ کبھی کبھار حالات سمجھ سے باہر ہو جائیں تب بھی بس شعوری طور پہ آگے کی جانب پڑھنے پہ مجبور کرتے رہیں خود کو۔
Just let things be.
کیوں کہ وقت کسی نا کسی طرح گزر ہی جائے گا۔
Cognitive Re framing , Mindfulness and Lucid Thinking , Emotional Literacy , Emotional Intelligence , Mindful Detachments
یہ سب وہ چیزیں ہیں جو میں نے گرین زون کے سیشنز مقدس مجید کے ساتھ اپنی گفتگو اور گروپ میں مختلف ممبرز کے تجربات سے سیکھیں۔ میں نے گرین زون کے سفر کے دوران یہ سیکھا کہ غیر ضروری بوجھ سے کیسے چھٹکارا پایا جائے۔ خود پہ لگے لیبلز کو عملی طور پہ کس طرح سے ختم کیا جائے۔ خود کو پازیٹو انرجی کا احساس کیسے دلایا جائے۔ شعوری طور پہ ان چیزوں اور لوگوں کو جو یقینا آپ کے ساتھ بہت اچھے ہیں ان سے کیسے خود کو الگ کیا جائے۔ اگرچہ اپ ان کے ساتھ اپنے تعلق میں ہمیشگی اور پختگی چاہتے ہیں اس کے باوجود اگر چیزیں اپ کے حق میں نہیں جا رہیں تو کیسے خود کو پرسکون رکھتے ہوئے ایسی صورتحال سے نکالا جائے۔ ایک وقت آئے گا جب ہر بے ترتیب چیز ایک ترتیب میں آنے لگے گی۔ بس اس بات کو یقینی بنائیں کہ پرسنل گروتھ کبھی رکنے نہیں دیں گے۔ غلطیاں کرنے سے نہ گھبرائیں۔ رسک اٹھانے سے مت ڈریں۔ اپنے آپ کو ایسے لوگوں کے درمیان رکھیں جو آگے بڑھتا ہوا دیکھ کے نا صرف خوش ہوں بلکہ آپ کی مدد بھی کریں۔ ان چاہے رشتوں، لوگوں اور حالات کو چاہے وہ کتنے ہی قریبی یا اہم کیوں نہ ہوں، اپنانے کے بجائے اچھے طریقے سے انکار کرنا سیکھیں۔ ایسے لوگوں، رویوں اور ایسے حالات پہ عبور پانا سیکھیں جو آپ کی ذہنی صحت کو متاثر کر رہے ہیں۔ بہتری کی جانب سفر جاری رکھیں۔ تھک جائیں تو سستا لیں لیکن کچھ دن، ہفتے، یا چند ماہ بعد دوبارہ وہیں سے سفر شروع کر لیں جہاں سے اپ چھوڑ چکے تھے بڑھتے رہیے۔ اس سفر کے دوران بہت بار آپ کو ان لوگوں سے بھی دور ہونا پڑے گا جن سے دور رہنے کا تصور بھی آپ نہیں کر سکتے۔ ایسی صورتحال میں خود اپنی ذات کو یکجا رکھیں۔ اپنے اپ سے جڑے رہیں۔ خود کو موقع دیں اور اچھے طریقے سے الوداع کہنا سیکھیں۔ تاکہ ان لوگوں رشتوں اور کامیابیوں کو جو غیر متوقع طور پہ آپ کی زندگی میں بطور انعام لکھ دی گئی ہیں اپ کی زندگی میں آنے کا موقع ملے نا کہ ماضی کو اس قدر سوار کرلیں کہ کوئی کرنا چاہے تب بھی آپ کو council نہ کرسکے۔ پرانے بوجھ سے جس قدر جلد ممکن ہو چھٹکارا پائیں تاکہ آنے والی خوشیوں کےلیے جگہ بن سکے۔

Mehar ali

کئی باتیں ایسی بھی ہیں جو آج بھی ہمارے معاشرے میں Social stigma اور gender stereotypes کے طور پر موجود ہیں۔۔۔۔آج بھی بہت سے معاشروں میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ عورت جسمانی اعتبار سے کمزور ہے اور قدرت نے اس میں احساسات اور جذبات کا عنصر مرد کی نسبت زیادہ رکھا ہے جبکہ مرد چونکہ جسمانی اعتبار سے مضبوط ہیں تو ان میں احساسات کم پائے جاتے ہیں۔۔۔۔میرا نقطۂ نظر اس سے بالکل مختلف ہے…بطور ایک مرد کے میں نے یہ محسوس کیا کہ معاشرہ پہلے دن سے ہمارے ذہنوں میں، جنہیں معروف فلسفی جان لاک “Tabula Rasa” یعنی ایک خالی سلیٹ کہتا ہے، اپنی سوچ کا نقش کندہ کردیتا ہے جن کا شاید حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔۔۔۔اس معاشرے میں جہاں عورت کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہاں ایک بڑا مسئلہ مرد کے ساتھ بھی درپیش ہے اور مسئلہ صرف مرد تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ پورے معاشرے پر اثرانداز ہوکر ایک منفی کردار ادا کرتا ہے۔۔۔یہ مسئلہ دراصل یہ ہے کہ مرد کو بچپن سے اپنے جذبات اور احساسات پر پر قابو کرنے کا کہا جاتا ہے اور انہیں یہ باور کروایا جاتا ہے کہ چونکہ تم مرد ہو تو اپنے جذبات اور احساسات کو بیان کرنا تمہیں زیب نہیں دیتا بلکہ اکثر تو یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ مردوں کو دکھ یا تکلیف نہیں پہنچتی یا اگر پہنچتی بھی ہے تو انہیں اس کو کسی سے بیان نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ عورتوں کا کام ہے۔۔۔۔نفسیاتی اعتبار سے یہ بات بالکل غلط محسوس ہوتی ہے۔

جب ایک لڑکے کے ذہن میں یہ بات ڈالی جاتی ہے کہ دکھ محسوس کرنا یا غمگین ہونا عورتوں کا کام ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ لڑکا جیسے جیسے بڑا ہوتا جاتا ہے اپنا اظہار اتنا محدود کرتا چلا جاتا ہے۔۔۔ وہ اپنا دکھ بیان کرنا معیوب سمجھنے لگتا ہے اور اس سے جڑے دوسرے لوگ بھی یہی سوچنے لگتے ہیں چونکہ وہ بھی انسانی روایات سے یہی بات سیکھتے ہیں۔۔۔حتیٰ کہ میں نے ذاتی طور پر لوگوں کو اکثر یہ کہتے سنا ہے کہ مردوں کو تو کسی کے مرنے پر بھی دکھ نہیں ہوتا اور اگر ہو بھی تو وہ رو کر اپنا catharsis نہیں کرسکتے۔۔۔شاید اب اس بات کو تسلیم کرنے کا وقت آگیا ہے کہ مردوں کو بھی دکھ ہوتا ہے اور وہ بھی چیزوں کو اسی شدت سے محسوس کرتے ہیں جیسے ایک عورت۔۔۔۔شاید اب اس روایت کو ٹوٹنا چاہیے اور مردوں کو بھی اظہار کی آزادی ہونی چاہیے کیونکہ اظہار تو کسی نہ کسی صورت میں ہونا ہی ہے۔۔۔جیسا کہ فرائڈ کا بھی کہنا ہے کہ جذبات اور احساسات مرتے نہیں بلکہ مزید بھیانک نتائج لے کر آتے ہیں۔۔۔اس لیے اگر اس روایت کو نہ توڑا گیا تو اس کے بھیانک نتائج صرف ایک مرد کو نہیں بلکہ پورے معاشرے پر منفی اثرات قائم کریں گی اور کسی بھی معاشرے میں امن قائم نہیں ہوسکے گا۔۔۔اس حوالے سے “گرین زون” کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔۔۔گرین زون سے میرا تعارف مقدس مجید صاحبہ کی وساطت سے ہوا۔۔مقدس مجید ایک بہت ہی عمدہ نظم کہتی ہیں اور دو اہم کتب کی مصنفہ بھی ہیں۔۔۔وہ کچھ عرصے سے نسلِ نو کو درپیش کئی اہم مسئلوں کے حل کےلیے کوشاں ہیں۔۔مجھے اس بات کی بے حد خوشی ہے کہ میرا تعارف “گرین زون” سے ہوا۔۔۔ہر اتوار ہونے والے آنلان سیشن میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔۔یہ سیشنز 7 ہفتوں تک چلتے رہے جس میں سے ایک سیشن معروف نفسیات دان ڈاکٹر خالد سہیل صاحب نے دیا۔۔۔ان سیشنز کے بعد زندگی کو دیکھنے کا میرا زاویہ کافی حد تک مثبت ہوا اور اس مثبت رویے میں ہر زور اضافہ ہورہا ہے۔۔میرے خیال میں ایسی سرگرمیاں ہونی چاہییں بلکہ ایسی سرگرمیوں کو باقاعدہ تعلیمی اداروں میں کروایا جانا چاہیے

Eman Fatima

ہمارے “نئے خواب کلب” کے گروپ میں، ایک بار مقدس نے گرین زون ٹریننگ کے بارے میں بتایا۔ میں نے بھی دلچسپی ظاہر کی۔ یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ میرے لیے زندگی بدلنے والے سفر کا آغاز ہوگا۔

گرین زون ٹریننگ میں حصہ لینا میرے بہترین فیصلوں میں سے ایک ثابت ہوا۔ میں نے نہ صرف اپنے بارے میں بہت کچھ سیکھا بلکہ اپنی ذہنی صحت کا خیال رکھنے کے اصول بھی سمجھے۔ سب سے اہم بات جو میں نے سیکھی وہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا تھا۔ ٹریننگ سے پہلے میں بہت جذباتی تھی اور اپنے احساسات کے مطابق جلد بازی میں ردعمل دے دیتی تھی۔ لیکن اس تربیت نے مجھے سکھایا کہ رک کر اپنے جذبات کو سمجھوں۔ اب میں اپنے آپ کو متوازن اور قابو میں محسوس کرتی ہوں۔

گرین زون ڈائری میرے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہوئی۔ شروع میں مجھے لگتا تھا کہ روزانہ کی ڈائری لکھنا فضول ہے، لیکن جیسے ہی میں نے لکھنا شروع کیا تو مجھے اس کے فوائد نظر آنے لگے۔ اپنے خیالات اور احساسات کو کاغذ پر اتارنے سے مجھے خود کو بہتر طور پر سمجھنے اور وضاحت حاصل کرنے میں مدد ملی۔ میں نے اپنی جذباتی کیفیات کا تجزیہ کیا اور ان عوامل کو پہچانا جو میرے موڈ پر اثر ڈالتے تھے۔ اس کے نتیجے میں، میں نے اپنی زندگی میں چھوٹے لیکن اہم مثبت تبدیلیاں کیں۔

میں نے اپنی پسندیدہ سرگرمیوں، جیسے فلمیں دیکھنا، چہل قدمی کرنا، اور کتابیں پڑھنا لکھا اور ان میں سے روزانہ کم از کم ایک کرنے کی عادت اپنائی۔ یہ صرف مصروف رہنے کے لیے نہیں بلکہ وہ کام کرنے کے بارے میں تھا جو مجھے خوشی دیتے تھے۔

میں نے پہلی بار اپنے “فیملی آف دی ہارٹ” یعنی ان لوگوں کی فہرست بھی بنائی جن پر مجھے سب سے زیادہ اعتماد تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے ساتھ میں اپنی ہر بات شیئر کر سکتی تھی، اور مجھے یقین تھا کہ وہ کبھی میرے بھروسے کو نہیں توڑیں گے۔ یہ فہرست بناتے وقت مجھے تحفظ اور سکون کا احساس ہوا، کیونکہ مجھے یقین تھا کہ میرے پاس ایک حقیقی سپورٹ نیٹ ورک موجود ہے۔

اس تربیت کے دوران، میں نے خود کا خیال رکھنے اور اپنی حدود طے کرنے کے اہم اصول بھی سیکھے۔ پہلے میں نے کبھی اس پر غور نہیں کیا تھا، لیکن یہ اصول میری زندگی کے لیے انقلابی ثابت ہوئے۔ میں نے اپنی ضروریات اور توقعات دوسروں کو بہتر طور پر سمجھانے کا فن سیکھا، جس سے میرے تعلقات میں بہتری آئی اور میرا دباؤ کم ہوا۔

اس تربیت نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ ان موضوعات پر دوسروں کو بھی آگاہی دینی چاہیے، کیونکہ یہ چیزیں روزمرہ زندگی میں کم ہی زیر بحث آتی ہیں۔ بہت سے لوگ اپنی ذہنی صحت، جذباتی کنٹرول، اور حدود طے کرنے کے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں، لیکن انہیں سمجھ نہیں آتی کہ کہاں سے شروع کریں یا کس سے مدد لیں۔ میں نے محسوس کیا کہ ان مسائل پر کھل کر بات کرنے اور شعور اجاگر کرنے کی کتنی ضرورت ہے

Azhar sheikh

پچھلے کچھ سالوں میں انٹرنیٹ سے معلومات کے ذریعے میرے سامنے ایک نئی دنیا نے میری روایتی سوچ کو بدل کر رکھ دیا تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ میرا ذہن اب دھاگوں کی طرح الجھ بھی چکا تھا کیونکہ گھر والوں نے اپنے معاشی مسائل کے حل کی ساری امیدیں مجھ سے لگائی ہوئی تھیں،مستقبل میں مجھے کیا کرنا  چاہیے یا میرا رجحان کیا ہے مجھے نہیں پتا تھا،ماضی کے منفی تجربات بھی دماغ میں اٹکے ہوئے تھے اور ان منفی تجربات کی وجہ سے لگتا تھا جیسے اب زندگی بس رک چکی ہے اور بس آگے اب کوئی راستہ نہیں ہے۔ مجھے اب یہ فیصلہ کرنے میں بھی بہت مسئلہ ہو رہا تھا کہ مجھے اپنی ساری توجہ کس طرف لگانا چاہیے کیا مجھے صرف خود کو اپنے گھر معاشی مسائل حل کرنے پر لگا دینا چاہیے یا اپنے آپکو قدامت پسندی سے دور رکھنے کے لیے مزید معلومت لینا چاہیے یا زندگی کو ماضی کے پچھتاوے میں گزار دینا چاہیے،میرا دل روتا تھا کیونکہ مجھے کوئی سننے والا ہی نہیں تھا۔ جب مجھے نئے خواب گرین زون پروگرام کا پتہ چلا تو میں نے اس میں فورا شمولیت اختیار کر لی،اس پروگرام کے ذریعے میں نے مقدس مجید سے اپنے مسائل شیئر کیے تو انہوں نے میری رہنمائی کی اور سمجھایا کہ مجھے ماضی کو درگزر کر کے زندگی میں آگے بڑھنا ہوگا،مجھے زندگی میں توازن برقرار رکھنا ہوگا ہر چیز کو مناسب وقت دے کر زندگی میں ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ ان کی رہنمائی سے مجھے اب پتا چل چکا ہے کہ مجھے کس سمت میں جانا ہے،اسکے علاوہ میں نے اپنے ذاتی مسائل بتائے جنکو میں عرصے سے کسی سے شیئر کرنا چاہتا تھا۔نئے خواب گرین زون پروگرام نے مجھے دلاسہ دیا،مجھے اب مستقبل کی زندگی کے لیے امیدیں نظر آ رہی ہیں۔

Mahnoor parveiz

” گرین زون لونگ ٹریننگ پروگرام کا تجربہ میرے لیے بہت اہم تھا، خاص طور پر اس روبوٹک زندگی میں جہاں ہم اکثر اپنے آپ کو کھو دیتے ہیں۔ اس پروگرام نے مجھے اپنے اندر جھانکنے اور خود کو سمجھنے کا موقع دیا۔ میں اپنی اموشنل کنڈیشن کو گرین یلو اور ریڈ زون کے سانچے میں ڈال کر یہ جاننے کے قابل ہوئی   کہ کسی غیر یقینی صورتحال میں میں نے خود کو کس طرح کمپوز رکھنا ہے اور یہ کہ زندگی کے انگنت کتنے خوبصورت لمحات میں دوسروں کی وجہ سے ضائع کر رہی تھی۔میں نے سیکھا کہ کس طرح اپنے آپ کو روزمرہ زندگی کے ups and down میں منظم کرنا ہے، اور ہر کمزوری کو قبول کرکے مقابلہ کرنا ہے۔ اور وہ قریبی لوگ جو کسی طرح مجھے ڈسٹرب کر رہے تھے میں نے ان کے ساتھ survive کرنا سیکھا۔اور سب سے بڑھ کر مجھے اپنے علاوہ دوسروں کی کہانیوں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور میں نے یہ جانا کہ میں اکیلی نہیں ہوں۔یہ ایک خوبصورت تجربہ تھا جو مجھے ہمیشہ کے لیے یاد رہے گا۔”

Sidra khan

گرین زون لیونگ پروگرام میری تاریک دنیا میں روشنی کی کرن کی مانند تھا۔ ہماری انسٹرکٹر، مقدس مجید، ایک مہربان دوست کی طرح تھیں جنہوں نے ہر قدم پر میرا ساتھ دیا۔ انہوں نے دل کی سننا اور خود سے محبت کرنا سکھایا۔

اور اس پروگرام سے جو سب سے قیمتی سبق میں نے سیکھا، وہ یہ تھا کہ اپنے تعلقات میں صحت مند باونڈریز مقرر کرنا کتنی اہم بات ہے۔ مجھے کبھی اندازہ نہیں تھا کہ ان حدود کا تعین کرنا کس قدر ضروری ہے، جب تک کہ میں نے یہ پروگرام مکمل نہیں کیا۔ اب میں سمجھتی ہوں کہ باونڈریز قائم کرنا نہ صرف میرے ذہنی سکون کی حفاظت کرتا ہے بلکہ دوسروں کے ساتھ مثبت اور صحت مند تعلقات قائم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔

جیسے جیسے میں نے پروگرام کے مراحل طے کیے، مجھے محسوس ہوا کہ میرے کندھوں سے ایک بوجھ ہٹ رہا ہے۔ میں نے اپنی خوشی کو ترجیح دینا، خود کو معاف کرنا، اور دوسروں کے ساتھ دل سے جڑنا سیکھا۔ میں نے یہ جان لیا کہ مجھے اپنے منفی خیالات اور جذبات کی غلامی میں رہنے کی ضرورت نہیں۔ میں خوش اور پر سکون زندگی گزارنے کا انتخاب کر سکتی ہوں۔

آج، میں خود کو ایک نئی انسان کی طرح محسوس کرتی ہوں۔ میں زیادہ پر اعتماد، زیادہ ہمدرد، اور اپنے آپ سے اور دوسروں سے زیادہ جڑی ہوئی ہوں۔ میں نے اپنی خامیوں کے ساتھ خود سے محبت کرنا اور موجودہ لمحے میں جینا سیکھ لیا ہے۔ “گرین زون لیونگ” پروگرام نے مجھے میری منفی سوچوں میں ڈوبنے سے بچایا، اور میں نئے خواب اور پوری گرین زون کمیونٹی کی ہمیشہ شکر گزار رہوں گی کہ انہوں نے مجھے محبت، امن، اور خوشی کی طرف واپس راستہ دکھایا۔

“آپ اپنے ماضی کو نہیں بدل سکتے، لیکن آپ اپنے حال کو بدل کر اپنے مستقبل کو بدل سکتے ہیں۔” —سی ایس لوئس

Laiba rashid

مجھے خوشی ہے کہ میں نئے خواب کےگرین زون لیونگ پروگرام کا حصہ بنی۔ اس پروگرام میں مجھے اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے، حدود مقرر کرنے، اور اپنی دیکھ بھال کرنے کے انمول اسباق سیکھنے کا موقع ملا۔ ایک سرگرمی میں ہمیں ایک “ریڈ زون خط”  لکھنا تھا اُس شخص کو جس نے ہمیں کہیں نہ کہیں سنگین جذباتی اذیت پہنچائی ہو۔ اس دوران میں نے ایک گہرے اور موجودہ مسئلے کا سامنا کیا جو میرے بہت قریبی شخص سے جڑا ہوا تھا۔

وہ شخص اپنے شوہر کے ناانصافی پر مبنی رویے کا شکار تھی، اور میں اس کے شوہر کے خلاف شدید غصہ اور کینہ دل میں لیے ہوئے تھی۔ اس تربیت کے ذریعے مجھے یہ ادراک ہوا کہ ان کا رشتہ ان کا ذاتی معاملہ ہے، اور مجھے ان کے شوہر کو صرف ایک شوہر کے طور پر نہیں بلکہ اُس انسان کے طور پر دیکھنا چاہیے جو وہ میرے لیے ہیں—ایک ایسا شخص جس نے میری زندگی میں مہربانی اور مدد کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس نئے زاویے نے مجھے اپنی نفرت کو ختم کرنے، بہتر حدود قائم کرنے، اور میری healing آغاز ہوا۔

مزید یہ کہ، جب میں نے اپنے بچپن کے bullying کے واقعات پر غور کیا، تو مجھے احساس ہوا کہ میں کتنی بدل چکی ہوں۔ اب میں دنیا کو اُن پرانے دکھوں کی نظر سے نہیں دیکھتی۔ اب میں اپنے ارد گرد موجود اچھے لوگوں سے ملنے والی محبت اور مہربانی کو گلے لگاتی ہوں اور خود کو پہلے سے زیادہ مضبوط، پراعتماد، اور حقیقی محسوس کرتی ہوں۔

I was the part of Naaye Khwaab’s first Online cohort for Green Zone Living Program. I learned invaluable lessons about regulating emotions, setting boundaries, and caring for myself. One activity involved writing a letter to someone who had been a source of stress, and I confronted a deep, ongoing issue involving someone very close to me. She faced unfair treatment from her husband, and I carried intense anger and grudges against him. Through the training, I realized that while their relationship is theirs to navigate, I needed to see him not just as her husband but as the person he is to me—a person who has been kind and supportive in my life. This perspective helped me let go of my resentment, set healthier boundaries, and begin healing. Additionally, reflecting on my childhood bullying, I recognized how much I’ve grown; I no longer see the world through the lens of those past hurts. Now, I embrace the love and kindness I receive from the good people around me, feeling more grounded, empowered, and true to myself than ever.

Scroll to Top