غم سے تعلق

غم زندگی کا ایک ناگزیر حصہ ہے اور مختلف حالات و واقعات میں پلے بڑھے افراد کی دکھ، غم یا تکلیف کو سہنے اور پراسس کر پانے کی قوت برداشت مختلف ہوتی ہے۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے نروس سسٹم ڈیویلپمنٹ اس کو میسر آنے والے ماحول اور مواقع پر منحصر ہوتی ہے اور مختلف ماحول و ذرائع میں پلے بڑھے انسانوں کے لیے نروس کیپسٹی یا قوت برداشت کا مختلف ہونا فطری ہی نہیں ایک سائنسی حقیقت ہے۔
نیورو سائیکالوجی کی سائنسی تحقیقات پر کچھ لوگ اپنی تکلیف کو اسی لیے کم وقت میں جبکہ کچھ لوگ قدرے زیادہ وقت میں پراسس کر پاتے ہیں اور ہر کسی کی رفتار انفرادی ہوتی ہے۔ یہ جاننا بہت اہم ہے کہ بہت سے افراد خود کو درپیش دکھ یا تکلیف سے کہیں زیادہ اپنی تکلیف پر اپنے ردعمل یا اظہار کے طریقوں پر اپنی طرف آنے والے معاشرتی و اجتماعی رویوں کے باعث نفسیاتی عارضوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔
معاشرہ اور اردگرد کے لوگ عمومی طور پر ہم سے یہ توقع کرتے ہیں کہ ہم جلدی آگے بڑھ جائیں۔ کسی بھی فرد کی انفرادی قوت برداشت اور نیورل کیپیسٹی(Neural capacity) کا لحاظ کیے بغیر اس کا موازنہ جلدی آگے بڑھ جانے والے لوگوں سے کرتے ہوئے اسے کمزور تصور کیا جاتا ہے۔ تکلیف میں مبتلا انسان کے انفرادی رد عمل و اظہار کو سمجھنے اور قبولیت فراہم کرنے کے بجائے اسے مسلسل جج کیا جاتا ہے۔ جذباتی سہارا دینے کے بجائے پند و نصائح  کی بوچھاڑ کر دی جاتی ہے۔
ڈاکٹر جوآن کیچیٹورے کی کتاب “Bearing the Unbearable” اس سوچ کے خلاف ایک نرم مگر طاقتور پیغام دیتی ہے۔
یہ کتاب فوری حل یا آسان جواب اور پند و نصائح فراہم کرنے کی بجائے ان لوگوں کے لیے ایک محبت بھرا ساتھی بن جاتی ہے جو کسی عزیز کے بچھڑنے یا کسی درد کے کٹھن سفر سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ اس کتاب کے چند پیغامات کچھ اس طرح ہیں ۔
ہر شخص کا غم دوسرے سے مختلف ہوتا ہے، جیسے ہر انسان کے انگلیوں کے نشان الگ ہوتے ہیں۔
غم منانے کا کوئی ایک طریقہ نہیں ہو سکتا۔
اس انفرادیت کو تسلیم کرنا ہمیں اس دباؤ سے آزاد کرتا ہے کہ ہم دوسروں کی توقعات کے مطابق غم کا اظہار کریں۔
غم صرف ایک جذباتی کیفیت نہیں بلکہ جسمانی طور پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔
تھکن، نیند کا خراب ہونا یا بھوک میں کمی جیسے علامات بہت عام ہیں۔
ان علامات کو سنجیدگی سے لینا اور جسم کی آواز سننا اس وقت بہت ضروری ہوتا ہے۔ ارد گرد کے لوگوں کا ان علامات سے گزرنے والے فرد کے ساتھ ہمدردانہ رویہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔
غم تکلیف دہ ضرور ہوتا ہے البتہ یہ ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم زندگی میں کچھ کھو دینے یا زندگی کے تلخ حقائق کے ساتھ اپنے تعلق کو ایکسپلور کریں ۔
یہ تعلق شعوری طور پر ایکسپلور کرنا دل کو سکون، قبولیت اور مقصد دے سکتا ہے۔
شفا ایک سیدھا، فکسڈ اور آسان راستہ نہیں بلکہ نشیب و فراز سے بھرا سفر ہے۔
یہ ضروری ہے کہ ہم خود کو ہر قسم کے جذبات کو محسوس کرنے کی اجازت دیں، بغیر کسی شرمندگی کے۔
آہستہ آہستہ اٹھایا گیا ہر قدم، چاہے چھوٹا ہی کیوں نہ ہو، ایک بڑی کامیابی ہوتا ہے۔
غم کے دوران دوسروں سے جڑنا زندگی کی ڈور بن جاتا ہے۔
ایسے لوگوں کے ساتھ تجربات بانٹنا جو خود بھی اسی راہ سے گزرے ہوں، یا آپ کو سمجھنے اور سپورٹ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہوں ایک محفوظ ماحول فراہم کرتے ہیں۔
ایسا ہمدردی بھرا تعلق دل کو تقویت دیتا ہے۔ اگر آپ کے ارد گرد ایسے لوگ یا ایسا کوئی ذاتی سرکل موجود نہیں تو کسی ماہر نفسیات سے رجوع کرنا اور ایکسپرٹ کے ساتھ اپنے جذبات کا اظہار نان ججمنٹل اسپیس میں کرنا اپنی ذات اور دکھ سے تعلق استوار کرنے میں مدد گار ہوتا ہے۔
غم انسان کو انتہائی کمزور اور نازک محسوس کرا دیتا ہے۔ اس کمزوری کو اپنانا، کھلے دل سے قبول کرنا انسان ہونے کا فطری اور خوبصورت حصہ ہے۔
یہی نرمی ہمیں اصل شفا یعنی اپنی ذات سے گہرے اور انسانیت پر مبنی تعلق اور زندگی کے حقائق کو قبول کر کے انکے ساتھ اندرونی سکون پیدا کرنے کی طرف لے جاتی ہے۔
غم کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو “ٹھیک” کیا جا سکے۔
یہ ایک لمبی زندگی کا حصہ بن جاتا ہے، جس کے ساتھ ہمیں جینا سیکھنا ہوتا ہے۔
وقت کے ساتھ غم بدل سکتا ہے، پھر سے سامنے آ سکتا ہے، لیکن اپنی ذات اور زندگی کے حقائق کے ساتھ صحت مند تعلق جینے کو ہمارے لیے با معنی بناتا ہے۔  اپنے غم سے اوپر اٹھ کر اپنی زندگی کو جینا، اس میں آگے بڑھتے رہنا بھی اسی کے ساتھ ممکن ہوتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top