مہرعلی
تاریخ کے ہر موڑ پر فنونِ لطیفہ اور ادب کسی نہ کسی صورت میں انسانی زندگی میں موجود رہے ہیں۔ گویا انسان ازل سے اپنے اندر کا اظہار کرتا آیا ہے چاہے وہ اساطیر ہوں،غاروں میں بنی تصاویر ہوں یا پھر لوک شاعری اور کہانیاں ۔۔۔۔ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسان کا پتھروں پر مختلف نقش بنانا، ان دیکھے دیوتاؤں اور بھوت پریت کو اپنی داستانوں اور نظموں کا حصہ بنانا دراصل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ ایک ایسی دنیا کا متلاشی ہے جو اس یہاں اسے میسر نہیں یا یہ بھی کہنا درست ہوگا کہ اس کا وجود اُس کی جسم کے قیدخانے سے فرار چاہتا ہے اس لیے وہ ایسی ایسی دنیائیں تخلیق کرتا ہے یا پھر فرائڈ کے مطابق وہ معاشرے کی لگائی پابندیوں سے بچنے کی خاطر اپنی جبلی خواہشات کا اظہار ایسے طریقوں سے کرتا ہے جو معاشرے میں قابلِ قبول ہوں یعنی فن اور ادب۔ اس کو نفسیات میں Sublimation کا نام دیا گیا ہے۔۔۔یہاں تک کہ سائنس اور فلسفہ، جو کہ تجربات، عقل اور منطق کی روشنی میں سچ کی تلاش کرتے ہیں ان میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ کہانیاں شامل ہوجاتی ہیں۔۔۔قدیم فلسفہ سے لے کر جدید سائنس تک ایسی کئی کہانیاں موجود ہیں۔۔نیوٹن کے سر پر سیب کا گرنا اور اس سے کششِ ثقل کا دریافت ہونا جو کہ سائنسی دنیا کا بہت مشہور واقعہ ہے، سٹیفن ہاکنگ کے نزدیک ایک افسانے کے سوا کچھ نہیں۔۔۔
انسان کی اس فطرت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ فن اور ادب انسانی ذہن کی تخلیق ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے ذہن پر گہرے اثرات بھی رکھتے ہیں۔۔۔۔ڈیجیٹل دور نے جہاں انسان کے کئی مسائل کا خاتمہ کیا ہے وہیں نئے مسائل کو جنم بھی دیا ہے اور پہلے کی طرح اب وہ مسائل خارجی نہیں بلکہ داخلی ہیں۔۔۔ہم دیکھتے ہیں کہ وقت کے قدم جیسے جیسے آگے بڑھ ہیں ویسے ویسے انسان کے ذہنی مسائل میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، اس کی نفسیات مزید الجھاؤ کا شکار ہورہی ہے ان کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں۔۔۔۔ایسے میں فن اور ادب بہت حد تک مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔۔۔ہم جانتے ہیں کہ انسانی ذہن تصاویر اور علامتوں میں سوچتا ہے حتیٰ کہ اسے خواب میں بھی ایسی ہی علامتوں اور تصاویر کا سامنا ہوتا ہے۔۔۔۔انسان جب ماضی کے دریچوں میں جھانکتا ہے تو پرانے واقعات تصاویر کی صورت میں اس کے ذہن کی سکرین پر نمودار ہوتے ہیں، ہوبہو حال اور مستقبل کے بارے میں کہا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔انسان جب کسی فن پارے سے آنکھ ملاتا ہے یا پھر کسی ناول، افسانے یا شعر کو پڑھتا ہے تو اپنے ذہن میں ایسی ہی تصاویر کو جنم دیتا ہے۔۔۔مثال کے طور پر Albert Camus کے ناول The Stranger کو اگر پڑھا جائے تو آغاز سے اختتام تک ہم الفاظ پڑھ کر اپنے ذہن میں تصاویر کو جنم دیتے ہیں اور خود کو اس کردار کی جگہ رکھ دیتے ہیں جو اپنی زندگی میں شدید لایعنیت کا شکار ہے اور اسے کسی بھی بڑے سانحے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔یہاں میں کچھ مثالیں شاعری سے دے کر اپنی بات کو مزید واضح کروں گا۔۔۔
زرد ملبوس پہن کر وہ چمن میں آئی
وہ بھی منجملۂ تصویرِ خزاں لگتی ہے
(ثروت حسین)
اس شعر کو پڑھتے ہوئے ایک dynamic picture اچانک ذہن کے کینوس پر ابھر آتی ہے جس میں زرد لباس پہنے ہوئے ایک حسین عورت خزاں کی طرح رقص کررہی ہے اور یقیناً یہ تصویر ہم سب کی اپنی اپنی ہوگی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یاد ہے وہ رات زیرِ آسمانِ نیلگوں
یاد ہے مجھ کو وہ تابستاں کی رات
چاند کی کرنوں کا بے پایاں فسوں، پھیلا ہوا
سرمدی آہنگ برساتا ہوا ہر چار سو
اور مرے پہلو میں تو۔۔۔۔۔
(ن ،م راشد)
راشد کی نظم کے اس حصے میں ایک مکمل تصویر بنتی ہوئی نظر آرہی ہے۔۔۔آسمانِ نیلگوں، رات، چاند کی کرنیں، محبوب کا پہلو میں ہونا یہ سب الفاظ اس تصویر کو جنم دیتے ہیں۔۔۔
A touch of cold in the Autumn night—
I walked abroad,
And saw the ruddy moon lean over a hedge
Like a red-faced farmer.
I did not stop to speak, but nodded,
And round about were the wistful stars
With white faces like town children
(T.E HULME)
مشہور انگریزی امیجسٹ شاعر کی یہ نظم بھی میرے خیال کی ترسیل کےلیے ایک اچھی مثال ہے۔۔۔اگر آپ touch of cold, autumn night, ruddy moon, red-faced farmer, white faces childern, جیسے الفاظ پر غور کریں تو کتنی ہی دلکش تصاویر بنتی ہیں جو ہمارے وجود میں سرایت کرکے مختلف احساسات پیدا کرتی ہیں۔۔۔۔گویا ہم کہہ سکتے ہیں فن اور ادب انسان کی قوتِ متخیلہ کو بڑھا دیتے ہیں اور اسے اپنے اندر سے نکلنے کی راہ دیتے ہیں۔۔۔۔
ادب پڑھنے کے ساتھ ساتھ ادب تخلیق کرنا بھی کافی حد تک ذہنی الجھاؤ یا ہمارے اندر موجود کئی ایسے احساسات اور جذبات کو purify کرسکتا ہے جسے ارسطو اپنی بوطیقا میں catharsis کا نام دیتا ہے۔۔۔۔بیسویں صدی کی انگریزی شاعری میں ایک تحریک confessionist poetry کے نام سے ہے جس میں شاعروں نے اپنے زندگی میں ہوئے واقعات کو براہِ راست اپنی شاعری کے ذریعے بیان کرنے کی کوشش کی۔۔۔سلویا پلاتھ اس حوالے سے ایک بہت اہم نام ہے۔۔۔۔بلاشبہ اس تحریک کا مقصد بھی یہی تھا کہ فرد جن چیزوں کا سامنا کرتا ہے اور جو محسوس کرتا وہ کھل کر بیان کردے۔۔۔
ادب تخلیق کرنا انسان کے لاشعور میں موجود فنا کے خوف کو بھی کم کرتا ہے۔۔۔۔موت اور فنا کا خوف انسان کے وجود کا حصہ ہے۔۔۔وہ اسے طاقِ نسیاں پر بھی رکھ دے تو یہ خوف اس کے لاشعور میں موجود رہتا ہے۔۔۔ایسے میں فن اور ادب کی تخلیق انسان کے اس خوف کو ختم نہیں تو کم ضرور کردیتی ہے۔۔۔ہم آج بھی قدیم انسان کو غار میں بنے نقوش سے پہچانتے ہیں یا اسی طرح دنیا کے بڑے بڑے دانشوروں اور شاعروں کو آج ہم صرف ان کے الفاظ کی وجہ سے یاد کرتے ہیں۔۔۔۔
ادب کا انتخاب کرنا بھی بے حد ضروری ہے خاص طور پر اس صورت میں جب کوئی ذہنی الجھاؤ کا شکار انسان ادب کو مطالعہ کرے۔۔۔ایسی صورت میں ایسے ادب کو منتخب کرنا چاہیے جو ہمارے وجود میں امید کے چراغ جلائے نہ کہ ایسا جو ہمیں نا امیدی کے کنویں میں مزید گرا دے۔۔۔۔
مختصر یہ کہ ادب اور فن انسان کی ذات کا حصہ ہیں۔۔۔ادب غاروں کے دور سے لے کر آج کے جدید دور تک انسان کی زندگی کا حصہ رہا ہے۔۔۔کہانیاں بُننا اور ایسی دنیا تخلیق کرنا جو موجود نہیں انسانی فطرت کا حصہ ہے۔۔۔ اختتام پر اردو کے ایک اہم شاعر کا شعر پیشِ خدمت ہے۔۔۔
اچھا سا کوئی شعر سنا اور سن کے ہم
اپنے ادھورے پن میں مکمل سے ہوگئے
(لیاقت علی عاصم)
5 Comments
یہ تحریر بہت عمدہ اورمنفرد ہے
Very well written! ♥️
Guess I really gotta read Sylvia Plath now!
Very well written
VERY CREATIVE APPROACH OF WRITING
Very creative approach of writing