
جذباتی مردہ خانے
پہلا شخص: یار سنو تمھیں معلوم ہوا کہ مصنوعی سانس بہت مشکل سے دستیاب ہے۔ لوگ تیزی سے جذباتی موت مر رہے ہیں۔ بازاروں میں دکانوں پر حتی کہ اب بلیک میں بھی مصنوعی سانس دستیاب نہیں۔
دوسرا شخص: تو پھر شرح اموات بہت زیادہ ہوگئ ہوگی۔
پہلا شخص : بالکل، شرح اموات اتنی ہے کہ اس کو درج کرنے کے لیے حکومتی سطح پر بھی کوئی خاص اقدامات نہیں اٹھائے گئے ۔
دوسرا شخص : رشتہ داروں کی طرف سے یا حکومت کی طرف سے ان کے کفن دفن کا کوئی انتظام نہیں ؟
پہلا شخص : بالکل نہیں ایسا کوئی انتظام نہیں، حتی کے انتہائی قریبی عزیز بھی ان کے جذباتی جنازوں میں شامل نہیں ہوتے۔ وہ خود ہی اپنی قبر کھودتے ہیں اور رات کے اندھیروں میں تنہا خود کو دفناتے ہیں۔
دوسرا شخص : ان کی قبر مزار یا کوئی نشانی جہاں فاتحہ پڑھی جا سکے؟
پہلا شخص : ارے بھائی, جو جیتے جی نہیں پوچھتے وہ کسی مزار پر فاتحہ پڑھنے کیوں آئیں گے۔ یہاں لوگ جذباتی موت کا سبب تو بنتے ہیں۔ لیکن مرنے سے بچانے کے لیے کوئی آگے نہیں آتا۔ یہ خود ہی اپنی قبروں پر حاضری دیتے ہیں اور خود ہی اپنے لیے فاتحہ پڑھتے ہیں۔
دوسرا شخص: بہت افسوس ناک صورت حال ہے۔ تو حکومت اتنے بڑے بحران پر کچھ نہیں کرتی؟
پہلا شخص : حکومت کی ترجیحات مختلف ہیں۔ انھیں کھانے پینے اور مال سمیٹنے کی فکر ہے۔ انسانی المیہ ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔
دوسرا شخص : مصنوعی سانس کون بناتا ہے۔ یہ فیکٹریاں کہاں ہیں۔ کیا حکومت ان فیکٹریوں کو سپورٹ کرتی ہے ؟
پہلا شخص : پہلے مصنوعی سانس کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ پھر ڈیجیٹل ڈیوائسز مصنوعی سانس مہیا کرنے لگیں۔ اب وہ آوٹ ڈیٹڈ ہیں۔ کچھ لوگوں کے دوست اور عزیز و اقارب بھی مصنوعی سانس کا کام کرتے تھے۔ اب وہ سب بھی میسر نہیں رہے۔ اور حکومت کا ایسا سپورٹ کا کوئی پروگرام نہیں۔ بلکہ وہ بجلی کے بلوں اور ٹیکسوں کی بھرمار اور مہنگائی کی گھٹن سے لوگوں کی بچی کچی سانسیں بھی کھینچ لیتی ہے۔
دوسرا شخص : آخر اس بحران کی وجہ کیا ہے؟
پہلا شخص : کچھ خاص نہیں، بس مفادات اور خودغرضی کی جنگوں کے بعد فضا میں تعفن اور آلودگی بہت پھیل گئی۔ کچھ لوگ سروایو کر جاتے ہیں لیکن زیادہ تر لوگ مصنوعی سانس کے بغیر نہیں چل پاتے۔
دوسرا شخص: اس تکلیف سے بچانے کے لیے کوئی ادارہ ، کوئی بحالی سینٹر کوئی ہسپتال ؟
پہلا شخص : ہسپتال تو کچھ موجود ہیں۔ مہنگے ہیں تو زیادہ تر جذباتی گھٹن کا شکار لوگوں کی ان تک رسائی نہیں ہے۔ آکسیجن کی بھی کمی ہے بعض ہسپتالوں میں۔ ڈاکٹرز بھی بس سپورٹ کرتے ہیں۔ زیادہ تر مریض کو خود ہی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ یوں بھی عوام کی مدد اور فلاح کے ادارے بنانا ہمارے ملک میں مشکل کام ہے۔ لوگ کاروبار کرنا پسند کرتے ہیں یہ ادارے جو حقیقی طور پر فلاحی ہوں بڑے جھنجھٹ کا کام ہے۔
دوسرا شخص: آبادی کے تناسب سے کتنی جذباتی اموات ہو چکی ہیں؟
پہلا شخص: معلوم نہیں پہلے بھی بتا چکا ہوں۔ اموات کی شرح زیادہ ہے۔ میڈیا صرف گولی، دھماکوں اور جنگوں سے مرنے والوں ،قتل کر دیے جانے والوں ، سیلاب میں بہہ جانے والوں ،زلزلہ میں دب کر مرنے والوں ، اور لٹکا کر مار دیے جانے والوں کی خبریں دیتا ہے ۔۔۔۔ جذباتی موت کی خبر نہیں چلتی ۔
دوسرا شخص : کیا عدالتیں اس جذباتی موت پر انصاف مہیا کرتی ہیں ؟
پہلا شخص : فلحال عدالتوں اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں کے لیے ایسے کیسسز مضحکہ خیز ہوں گے۔ کوئی مخصوص عدالتیں نہیں ہیں۔
ہمارے ہاں انصاف سستا ہی کہاں ہے۔ ابھی تو گولی سے مرنے والوں کے کیسسز ہی سالوں سے انصاف کے منتظر ہیں۔ جذباتی موت مرنے والوں کی حقیقی موت بھی واقع ہو جائے تو اس نظام میں انصاف نہیں مل سکتا۔
دوسرا شخص : مجھے تو لگتا ہے کہ یہ شہر زومبیز سے جلد بھر جائے گا۔
پہلا شخص : ہاں مرے ہوئے شخص کا زندہ لوگوں کی طرح چلنا پھرنا اور زندگی جینا گویا اسی طرح ہے جیسےزومبیز ۔۔۔
دوسرا شخص : کیا جذباتی قتل کی کوئی سزا ہے۔
پہلا شخص : یہاں کے قانون کے مطابق جذباتی قتل کی سزا مقتول ہی سہتا ہے۔ اور ہمیشہ سہتا ہے۔ جب کہ قاتل پر کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی۔
دوسرا شخص : یہ صورت حال تو کافی تشویش ناک ہے۔
پہلا شخص : ہے تو سہی لیکن کیا کہہ سکتے ہیں ۔
دوسرا شخص : اچھا بھائی بہت وقت ہوگیا چلتے ہیں ابھی گھر جا کر بڑے بھائی کو گھر سے نکالنا ہے۔ زیادہ بولتا نہیں ، معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتا۔ محبت کرنے والا ہے ، قربانی دینے والا ہے ۔۔۔ لیکن ڈر ہے کہ ذہین بہت ہے۔ سارے کاروبار پر قبضہ نہ کر لے۔ کچھ کرنا پڑے گا، دعا کرنا
پہلا شخص: ہاں جی ! کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑتا ہے۔ میری چھوٹی بہن بھی نرس بننا چاہتی تھی ۔ اچھے نمبروں سے پاس ہوئی تع میں نے شادی کر دی زبردستی۔ پتہ تو ہے ہسپتالوں کے معاملات، ہماری ناک کٹواتی ۔۔۔۔۔ اب اس کے چار بچے ہیں۔ خوب خاوند نے باندھ کر رکھا ہے۔ ہماری بلا سے اب شوہر جانے اور وہ جانے۔ ہماری عزت تو بچی ۔۔۔۔
پہلا شخص : ہاں بس پھر کچھ نہ کچھ تو کرنا ہوتا ہے۔
اچھا پھر ملیں گے، خدا حافظ!