خوشگل از ثمین صداقت
خوشگل از ثمین صداقت ہم لڑکیوں کو شیشے سے پار کیوں نہیں دیکھنے دیتے؟ چاہے لوگ متفق نہ ہوں لیکن دنیا عورت کوخوبصورتی کے پیمانے سے ناپتی ہے۔ اس دنیا میں لاتعداد کلچر ہیں ہر کسی کی خوبصورتی کی تعریف چاہے مختللف ہو لیکن عورت کے لیے پیمانہ ایک ہی مختص ہے۔ پیدائش سے لے کر جوانی کے دہلیز پر قدم رکھنے سے لے کر دائمی سفر پر جانے تک ایک لفظ عورت کثرت سے سنتی ہے اور وہ ہے : خوبصورت، بدصورت!اگر آپ اس بات سے متفق نہیں تو سوچ کر بتائیں کہ اگر کسی عورت کی تعریف کرنی ہو تو آپ کیسے کرتے ہیں؟ ’آج آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں، واؤ پریٹی، حسین، خوبصورت، یار آج کیا لگ رہی ہو، گورجیس‘ اس جیسی لاتعداد تعریفیں جو صرف ظاہری شخصیت کے متعلق ہوتی ہیں۔ کسی انسان نے عورت کو برا محسوس کروانا ہو تو وہ بےاختیار اس کی ظاہری شکل و صورت کے متعلق طنز کرتے ہیں، ’او ہو موٹی ہو گئی ہو، ویٹ گین کیا ہے، رنگ کو کیا ہو گیا ہے، ہاتھ، پاؤں چہرہ سب کے رنگ مختلف ہیں، کالی بیٹی پیدا ہو گئی، دانے کتنے نکل گئے ہیں چہرے پر، ڈبل چن۔۔‘ایک لمبی فہرست جنہیں سن کر عورت کے چہرے کا رنگ سیکنڈ میں تبدیل ہوتا ہے اور اپنے آپ سے ناپسندیدگی کا جغرافیہ بلند سے بلند تر ہوتا جاتا ہے۔ اگر مرد کی تعریف کرنی ہو تو ہماری زبان سے بغیر کسی اعتراض کے ’ہینڈسم‘ نکلتا ہے۔ اکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق اسکے معنی ہے ’سوٹ ایبل، کلیور معنی چالاک‘ اس کے برعکس عورت کے لیے خوبصورت کا لفظ زبان زد عام ہے جسکا مطلب حسن و جمال، یا دماغ کو خوش کرنا ہے۔ مسائل ان الفاظ سے شروع ہوتے ہیں۔ عورت زندگی میں جتنی مرضی کامیاب ہے، جس بھی عہدے پر ہے، بہترین طریقے سے رشتے نبھا رہی ہو، اپنے کام میں بہت ماہر ہے لیکن اگر اس کا وزن زیادہ ہے، رنگ پکا ہے، بال سفید ہیں اور سب سے ضروری بات وہ میک اپ کے بغیر ہے تو اس پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو آپ سوچیں اور خود اردگرد دیکھیں اگر کوئی عورت اوپر بیان کیے حلیے میں کوئی کام کرتی پائی جائے توآپ نے ایسی آوازیں نہیں سنی کہ ’انہیں تو سینس ہی نہیں، یہ ایسے ہی اٹھ کر آ گئیں، اسے اس عہدے پر بٹھایا کس نے ہے؟ لگتا ہی نہیں یہ اس پوزیشن پر کام کرتی ہے۔‘انہیں سب باتوں سے آج کی لڑکی اپنے دن کا آدھے سے زیادہ حصہ ’میں کیسی لگ رہی ہوں‘ کی سوچوں میں گزراتی ہے، چہرے پر نکلا ایک دانہ گھنٹہ کب کھا جاتا ہے معلوم ہی نہیں ہوتا۔ وزن بڑھ جائے تو اپنی نظروں میں وقعت گر جاتی ہے، سوچنے لگتی ہیں کہ ہم اب کسی لائق ہی نہیں، خوشیوں اور کامیابیوں کو ظاہری شخصیت کے ساتھ جوڑنے کا کام بہت اعلیٰ طریقے سے صرف سوشل میڈیا نے نہیں کیا۔ اس میں والدین، فیملی، دوست احباب سب شامل ہیں۔ کبھی کسی نے سوچنے کی زحمت ہی نہیں کی کہ خوبصورتی کی دوڑ ہماری لڑکیوں کو کس طرح ایک کمرے میں بند کر رہی ہے جہاں ان کی سوچ، میں خوبصورت ہوں یا نہیں، پتلی ہوں یا موٹی، کالی، گوری، چہرے ہر نکلے دانے سے سر پٹخ پٹخ کر واپس دماغ تک پہنچ جاتی ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ایسی کیا بات ہے کہ اگر ایک عورت خوبصورت دکھنا چاہتی ہے؟ کوئی برائی نہیں۔ برائی اس میں ہے کہ ہم لڑکیوں کو ’صرف اور صرف‘ خوبصورت دیکھنا چاہیں۔ ایک خاص’ فگر‘ میں دیکھنا چاہیں۔اگر وہ پتلی یا کلیئر سکن کیساتھ نہیں ہیں تو انہیں جینے کا حق بھی نہیں۔ ہمارا پیسہ، سوچ، خیالات، اور سب سے قیمتی وقت اس خوبصورتی کی دوڑ میں ختم ہو جائے۔ میرا یہ سوال ہے کہ کیا خوبصورتی اس قدر اہم چیز ہے جس پر وقت صرف کیا جائے؟ ریسرچ کے مطابق لڑکیاں صبح کے وقت تیار ہونے میں کم سے کم پندرہ سے بیس منٹ لگاتی ہیں۔ اپنی زندگی کے دو سال وہ صرف میک اپ کرنے میں صرف کرتی ہیں۔وہ خوبصورت لگ رہی ہیں یا نہیں یہ اس بات کا تعین کرتا ہے کہ انکا دن کیسا گزرے گا۔ ریسرچ کے مطابق اگر آپ کا دیہان اپنی ظاہری شخصیت کے اوپر ہے کہ آپ کے کپڑے درست ہیں یا نہیں، بال ٹھیک ہیں یا نہیں، میک اپ، لپ اسٹک، یا جنرل طور پر آپ کیسی لگ رہی ہیں۔۔یہ چیزیں آپ کی پرفارمنس پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ آپ صحیح فیصلے نہیں کر پاتے، آپ پراعتماد نہیں رہتے، آپ کی سیلف ایسٹیم تباہ و برباد ہو جاتی ہے۔ ’میسلو کی ہیرارکی آف نیڈ‘ کے مطابق اگر آپ کی سیلف ایسٹیم کم ہے تو آپ کبھی بھی اپنے فل پوٹینشیل (حقیقی صلاحیت) کو پہچان نہیں سکتے۔ اسی لیے مختلف ریسرچ کے مطابق لڑکیوں کی پولیٹیکل اینگیجمنٹ صفر کے برابر ہے۔ پاکستان میں صرف ۶ پرسنٹ خواتین بڑے عہدوں پر فائض ہیں۔ مان لیتے ہیں کہ مزید دوسرے عناصر ہوں گے لیکن ان سب عناصر میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم نے لڑکیوں کو خوبصورتی سے آگے بڑھنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ اگر وہ خوبصورت ہیں تو زندگی میں اسے برقرار کرنے کی جدوجہد کرو اور اگر وہ نہیں ہیں تو خوبصورت بننے کی قطار میں لگ جاؤ اور اس میں زندگی کے بہت سے سال، انرجی، پیسہ صرف کر دو۔ کہا جاتا ہے کہ خوبصورتی پر بات کرنے سے زیادہ ضروری اور بہت سے اہم مسائل ہیں۔ میں بھی یہی کہتی ہوں لیکن اگر ہماری لڑکیاں اپنے پوٹینشیل کو نہیں پہچانیں گی تو دنیا کے اہم مسائل پر غور وفکر کیسے کریں گی؟ جب ہم نے اپنی لڑکیوں کی سوچ و خیالات کو ’وہ کیسی دکھتی ہیں‘ تک محدود کر دیا ہے تو وہ کیسے دنیا فتح کریں گی؟ اگر وہ ویٹ مشین سے آگے قدم نہیں بڑھائیں گی تو دنیا کا سفر کیسے طے کریں گی؟ اگر وہ اپنے دن کا بہت سا حصہ کیلوریز کاؤنٹ کرتے، کیا کھانا ہے کیا نہیں کھانا، میک اپ اور کپڑے سیٹ کرتے گزار دیں گی تو آگے کیسے بڑھیں