قرضِ حسنہ
قرضِ حسنہ فاطمہ الزھراء سنو نوعِ انساں پہ تم ایک احساں کرورنج و دشنام کے سب اثاثے سمیٹووہ ٹوٹے ہوئے خواب کی کرچیاں پھر ہنسی میں ابھرتے سبھی دکھ، الم اور مایوسیاں تم اکٹھی کروپھر اٹھا کر یہ بے کار سامان تم بحرِ مضطر کی پاتال میں چھوڑ دوپر ایسا تو ممکن نہیں ہے یہاںیہ جو دنیا ہے، مکر و فریب اس کے سبہزاروں طریقوں سے الجھائیں گےاور تعفن زدہ حبسِ بے جا میں گھٹ کرتمہارے سبھی خواب مر جائیں گے تو کیا ہے کہ مشکل ہے جینا یہاںپر آساں تو مرنا بھی ہرگز نہیں ہےتو ایسا کرو اب کہ جینا سکھاؤشکستوں کو بابِ محبت پڑھاؤوہ روحوں کی تشنہ لبی کو مٹاؤ تو بھٹکے ہوؤں کو بھی رستہ دکھاؤ مگر یاد رکھو یہ احساں نہیں ہے تمہارے لیے قرضِ حسنہ ہے یہ کہ چند ٹوٹے دلوں کو سمیٹے ہوئے تم اس نظمِ فانی سے جب جاؤ گےتو تمہارے سبھی زخم بھر جائیں گےکہ یہ چند لمحے، تمہارا اثاثہ کسی کے سکوں کا جو مصرف ہوئے اپنے خالق کے آگے گواہوں کی صورت تمہارے طرف دار بن جائیں گے Leave a Reply Cancel Reply Logged in as admin. Edit your profile. Log out? Required fields are marked * Message*


