اب مارل بولے گا
اب مارل بولے گا اسے نہیں یاد کہ اس کے ماں باپ نے اس کا نام کیا رکھا تھا۔ جب اس نے ہوش سنبھالا خود کو غلاموں کے گروہ میں دیکھا۔ وہ اتنا جانتا تھا کہ وہ سندھ میں ہے۔ مگر اسے یہ نہیں پتا تھا کہ وہ سندھ سے ہے یا نہیں۔ کیا اسے کہیں سے ہونا تھا؟ کیا غلاموں کا کوئی وطن ہوتا ہے؟کوئی اسے مور بلاتا، کوئی مورو اور کوئی مارل۔ اس نے کبھی جاننے کی کوشش نہیں کی کہ ان ناموں کے مطلب کیا تھے۔بس اتنا کافی تھا کہ اسے پتا تھا کہ کس لفظ پہ اسے جان لینا ہے کہ یہ حکم اس کے لیے تھا۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آفس میں داخل ہوتے ہی بائیں طرف پہلا کمرہ فرزانہ کا آفس تھا۔ فرزانہ اندر کی جانب مڑی تو نور علی نے اس کی طرف الوداعی مسکراہٹ سے دیکھا اور آگے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔فرزانہ اپنے کمرے کے دروازے پہ ہی ایک بازو چوکھٹ پہ ٹکا کے اسے جاتا دیکھ رہی تھی۔محبت سے نہیں۔۔۔۔ پر سوچ انداز میں۔ نور علی اپنے کمرے میں داخل ہونے لگا تو اسے اندازہ ہوا کہ فرزانہ ابھی تک دروازے پہ ہی کھڑی تھی اس نے مبہم سے سوالیہ انداز میں دیکھا اور فرزانہ اتنے ہی مبہم انداز میں انکاری انداز میں سر ہلا کے کمرے میں مڑ گئی۔ ان کی ذہنی ہم آہنگی اتنی ہی مضبوط تھی کہ دونوں ایک دوسرے کی نظروں کے مطلب بھی سمجھ جاتے تھے۔ اس کے باوجود فرزانہ، نور علی کی شخصیت کے کچھ پہلو نہیں سمجھ پارہی تھی۔ ممکن ہے نور علی بھی ایسی ہی کیفیات سے گزرتا ہو۔ لیکن دونوں نے کبھی اس پہ بات نہیں کی۔ فرزانہ بات کرنا چاہتی تھی لیکن اسے وہ الفاظ نہیں مل پارہے تھے جن کی مدد سے وہ اپنے احساسات واضح کرسکے اور نور علی کو یہ احساس نہ ہوکہ فرزانہ اسے کسی قسم کی عدالت میں جوابدہی کے لیے کھڑا کر رہی ہے۔اس نے ڈیڑھ سال کے عرصے میں یہ اچھی طرح جان لیا تھا کہ نور علی حساس طبیعت شخص ہے لیکن اس کے باوجود سیاسی اور معاشرتی مسائل پہ بات کرتے ہوئے چڑ جاتا تھا۔ یا شاید صرف تب چڑتا تھا جب بات میں حوالے کے طور پہ اس کے گاؤں کا تذکرہ نکل آتا تھا۔فرزانہ نے اس بات پہ پہلے اتنا غور نہیں کیا تھا لیکن پچھلے دو ماہ سے اس نے ان معاملات کو الگ انداز میں دیکھنا شروع کیا تھا جب نور علی نے اس سے شادی کی خواہش ظاہر کی تھی۔ آج بھی وہ اسی حوالے سے سوچ رہی تھی۔ وہ ذہنی طور پہ بالکل تیار رہنا چاہتی تھی کہ اگر وہ نور علی سے شادی کرتی ہے تو اسے اس کے گاؤں میں کس قسم کے ماحول کاسامنا ہوگا۔دیکھا جائے تو فرزانہ کی گاؤں کے ماحول تک رسائی کا ذریعہ صرف اخبار اور خبریں تھیں۔ اور یہ کوئی مثبت تصویر پیش نہیں کرتے تھے۔ اسی لیے وہ اب بات بات میں نور علی سے اس کے گاؤں کی بات کرنے لگی تھی تاکہ جان سکے۔ یا شاید اس لیے تاکہ اپنی “غلط فہمی” دور کر سکے جو غلط فہمی تھی بھی یا نہیں اسے بالکل اندازہ نہیں تھا۔کم و بیش یہی پریشانی اس کے گھر والوں کو بھی تھی جس کی بنیاد پہ ابھی تک کوئی واضح فیصلہ ہوتا نظر نہیں آرہا تھا۔بلکہ اصل میں مسئلہ شروع ہی تب ہوا تھا جب اس نے گھر پہ بتایا۔ ابو اور امی دونوں کے الگ الگ تحفظات تھے۔ ابو کو فکر تھی کہ رشتے دار اعتراض کریں گے۔ ہم زبان ہوتا تو چلو کوئی جان پہچان کا بہانہ نکالا جاسکتا تھا۔ مگر یہاں تو زبان بھی الگ ذات بھی الگ، سندھی وہ بھی گاؤں کا۔ اور فرزانہ کا خاندان وہ تھا کہ جب دو بزرگ مل بیٹھیں اور ہندوستان سے ہجرت کا واقعہ نہ نکلے یہ ممکن ہی نہیں تھا۔ یہ الگ بات تھی کہ اب شاید گن کے دو یا چار ہی ایسے بزرگ رہ گئے تھے جنہوں نے بچپن میں بٹوارہ ہوتے دیکھا تھا۔ فرزانہ کے اپنے والدین پچاس کی دہائی میں ہی پیدا ہوئے تھے۔ اور وہ اپنے والدین کی سب سے بڑی اولاد تھی۔ انہوں نے بھی ہندوستان سے آنے کے بس قصے ہی سنے تھے۔ ہاں لیکن مہاجر ہونے کا فخر ضرور نسل در نسل منتقل ہورہا تھا۔ اس بات کا فخر کہ ملک کی بنیادوں میں جو خون ہے وہ ہمارے ہی آباؤاجداد کا تھا۔ اس بات کا فخر کہ قومی زبان ہماری مادری زبان ہے۔ ابو نے شہر میں ہونے والے سندھی مہاجر جھگڑے بہت قریب سے دیکھے تھے کالج میں جن دوستوں کے ساتھ کینٹین میں گپیں لگاتے تھے انہی سے پٹے بھی تھے۔ اور موقع ملنے پہ پیٹا بھی تھا۔اب وہ جھگڑے تو نہیں تھے۔ دوبارہ سندھی دوست بھی بنے، آفس کے ساتھیوں میں بھی سندھی تھے۔ پڑوس میں بھی کئی گھر اب سندھی خاندانوں کے تھے لیکن بیٹی ایسے گھر میں دیتے ہوئے لگتا تھا جیسے ساری قوم ان پہ انگلی اٹھائے کھڑی ہے “تم ہو جو سندھو دیش بنانے والوں کی افرادی قوت بڑھا رہے ہو، تم ہو جو ملک میں ڈیم بننے سے روکنے والوں کو رشتے دار بنا رہے ہو۔ اب تم کیسے کہو گے کہ تمہارا تو فلاں زندہ ہے اسی لیے ترقی نہیں کر پارہے۔ اب تمہاری بیٹی کے حجلہء عروسی میں بی بی کی تصویر لگی ہوگی۔” امی کو ڈر تھا کہ فرزانہ، نور علی سے پسند کی شادی کرے گی تو نور علی کے گھر والے کاری کرنے نہ آجائیں۔ ان کی دوسری بڑی پریشانی یہ تھی کہ وہ شادی کرکے گاؤں چلی بھی گئی تو لیٹرین باتھ روم کا کیا کرے گی۔ بندہ کھلے عام لکڑیوں پہ کھانا پکا سکتا ہے۔ لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فرزانہ کے لیے یہ تمام اعتراض بالکل غیر منطقی تھے اس کے لیے تو گاؤں کے مسائل باعث فکر ہی اس لیے تھے کیوں کہ اسے لگتا تھا کہ اسے جتنی انسیت اپنے شہر سے ہے اتنی ہی انسیت گاؤں سے بھی ہے وہی اپنائیت کہ وہ مختلف سہی مگر اپنا ہے۔گھر پہ وقتاً فوقتاً شروع ہو جانے والی بحثوں کا اثر یہ ہوا کہ اب تقریباً روز ہی اس کی

