Meher Ali

Meher Ali

Balancing “Duty” and “Desire”

Balancing “Duty” and “Desire” Freud’s groundbreaking work Civilization and Its Discontents deals with the themes of civilization and the primitive side of an individual. Freud defines both these terms through his psychoanalytic theory. On one hand, we have civilization, which he defines as: “The whole sum of the achievements and regulations which distinguish our lives from those of our animal ancestors…” On the other hand, we have our primitive side, our instinctual desires. There is always a state of conflict between the standards of civilization and the demands of our primitive side. Most of the book focuses on how an individual is affected when they are not allowed to fulfill the desires of the unconscious mind. When an individual is forbidden from acting upon their instinctual urges, anxiety grows within them, giving birth to suffering. However, when one manages to achieve the goal of seeking pleasure or satisfying unconscious desires, they attain happiness. According to Freud, “The liberty of the individual is no gift of civilization.” Whenever an individual does not get what they want, they become conscious of their individuality and begin to differentiate themselves from the external world. Freud gives the example of an infant, who, according to him, possesses only primitive or unconscious desires and has no trace of ego. An infant has no awareness of the external world, when hungry, it yearns for milk, and when the desire is not immediately fulfilled, it begins to create a line of demarcation between the external world and the self, leading to the development of the ego. The last chapter of the book is dedicated to the concept of guilt and how it arises. In civilization, every individual must follow certain rules and regulations, as this is how society functions. If everyone started breaking those standards, civilization would no longer remain a civilization. When an individual fails to adhere to these standards, they feel useless, and their conscious mind develops a sense of guilt. As individuals, we must maintain a healthy balance between the standards of civilization and our instinctual desires in order to escape anxiety and guilt. We should fulfill our responsibilities, which are the gifts of civilization, because, according to Aristotle, “Only a beast or a god can live without society.” Yet, while fulfilling these responsibilities, we must not surrender our liberty, for without it, we cannot live happily. A healthy individual is one who masters the art of balancing these two demands. He who fails to do so will suffer, either from anxiety or from guilt Leave a Reply Cancel Reply Logged in as admin. Edit your profile. Log out? Required fields are marked * Message*

Blog, Meher Ali

نئے خواب، نیا نصاب”: مختصر تعارف و تبصرہ”

نئے خواب، نیا نصاب”: مختصر تعارف و تبصرہ” مقدس مجید صاحبہ سے میری پہلی ملاقات پاک ٹی ہاؤس میں ہوئی۔ ہم دونوں Urban World USA کے زیرِ اہتمام ہونے والے ایک پروگرام Pakistan Youth Poet Laureate کا حصہ تھے، اس لیے شاعری ہی ہمارے درمیان پہلا تعارف بنی۔ پہلی ملاقات میں ان سے ادب اور ادب کے علاوہ بہت سے موضوعات پر گفتگو کا موقع ملا، اور اس حوالے سے ان کے خیالات سن کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ میں عام طور پر لوگوں سے متاثر نہیں ہوتا، بلکہ مجھے یاد نہیں کہ میں کب کسی سے متاثر ہوا تھا۔ البتہ یہ بات میں مقدس مجید کے بارے میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ میں ان کی شخصیت اور ان کے خیالات سے بے حد متاثر ہوا۔ اسی ملاقات میں انہوں نے اپنی پہلی کتاب “نئے خواب، نیا نصاب” بھی پڑھنے کے لیے عنایت کی۔ یہ کتاب دراصل مقدس مجید اور معروف نفسیات دان ڈاکٹر خالد سہیل کے درمیان خطوط کا تبادلہ ہے، جس میں کل 29 خط شامل ہیں۔ معاشرے کا شاید ہی کوئی ایسا مسئلہ ہو جو ان خطوط کا موضوع نہ بنا ہو۔ سوال اٹھانے کی اہمیت سے لے کر عورتوں کے مسائل اور دیگر ایسے موضوعات، جنہیں آج بھی ہمارے معاشرے میں taboo سمجھا جاتا ہے، ان خطوط کا حصہ ہیں۔ یہ کتاب دراصل نوجوان نسل کے مسائل پر ایک مکالمہ ہے، جن میں معاشرتی اور نفسیاتی ہر طرح کے مسائل شامل ہیں۔ یہ کتاب ایک فرد پر معاشرے کی لگائی گئی پابندیوں کا تذکرہ کرتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرہ کبھی بھی ایک فرد کو وہ نہیں بننے دیتا جو وہ بننا چاہتا ہے۔ نطشے نے کہا تھا: Society tames the wolf into a dog, and man is the most domesticated animal. ہمارے معاشرے میں آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے کہ بچپن ہی سے اس کے سوالات پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے، اور اس کا آغاز گھر سے ہوتا ہے، اور شاید سب سے زیادہ اسکول، کالج اور مدارس سے، جہاں کچھ بھی نیا سوچنے یا پوچھنے پر ستائش کے بجائے سزا ملتی ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ تمام زندگی انہیں خیالات اور نظریات کے سہارے گزار دیتے ہیں جو ہمیں معاشرے اور خاندان سے ملتے ہیں۔ ہم کبھی ان پر سوچنے کی کوشش نہیں کرتے، نہ ہی ان پر سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ یا کیا یہ نظریات اور خیالات درست بھی ہیں یا نسل در نسل بغیر کسی شواہد کے منتقل ہو رہے ہیں؟ اس کتاب میں نوجوان نسل کی نمائندگی کرتے ہوئے مقدس مجید نے ایک بہت اہم سوال اٹھایا ہے کہ آخر کامیابی کیا ہے؟ یہ سوال اکثر میں بھی سوچتا ہوں، اور یقیناً یہ سوال ہم میں سے اکثر لوگ اپنے آپ سے پوچھتے ہوں گے۔ ڈاکٹر خالد سہیل اس حوالے سے بہت ہی عمدہ جواب دیتے ہیں کہ کامیابی مختلف لوگوں کے لیے مختلف تصور رکھتی ہے۔ کامیابی کی ایک تعریف وہ ہے جو معاشرہ ہمیں دیتا ہے، یعنی پیسے کمانا، دنیاوی آسائشوں کے لیے جدوجہد کرنا، شادی کرنا، بچے پیدا کرنا وغیرہ۔ جبکہ اس کے برعکس کامیابی کا ایک تصور غیر روایتی اور تخلیقی ہے، جس میں ایک فرد اس کامیابی کی اُس تعریف کو، جو اسے معاشرے کی طرف سے ملی ہے، رد کر دیتا ہے۔ ایسے لوگوں کے ہاں کامیابی سچ کی تلاش اور اپنے اور دیگر انسانوں کی فلاح و بہبود ہوتی ہے — یعنی ادیب، سائنس دان، فلسفی وغیرہ۔ یہ بات بھی ایک معمہ ہے کہ معاشرے سے ملنے والے تصور پر عمل پیرا ہونے والے افراد صرف اپنی ذات کے غم میں مبتلا ہوتے ہیں، جبکہ جو معاشرے سے ہٹ کر اپنی کامیابی کا تصور خود تراشتے ہیں، وہ اپنی ذات کے بند کمرے سے نکل کر پورے معاشرے کے لیے سوچتے ہیں۔ اس کتاب میں ان مسائل پر بھی گفتگو کی گئی ہے جو پدرسری معاشرے میں عورت کو پیش آتے ہیں۔ اس کے علاوہ شادی، بچوں کی ذمہ داری، نفسیاتی مسائل وغیرہ پر بھی بہت تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے، جس کو پڑھ کر ہمارے ذہنوں میں نئے نئے سوالات جنم لیتے ہیں۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ کسی بھی کتاب کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ اپنے قاری کو کس حد تک سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ جو کتاب آپ کے ان نظریات پر، جو کلیشے کی صورت اختیار کر چکے ہوں، سوال نہیں اٹھا سکتی یا آپ کو سوچنے کے لیے آمادہ نہیں کر سکتی، وہ کتاب کامیاب نہیں کہلا سکتی۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو یہ کتاب نہایت کامیاب ہے۔ ایسا معاشرہ، جہاں لوگ سوال نہیں اٹھاتے، یا جس میں لوگوں کی آنکھیں روایت سے ہٹ کر خواب نہیں دیکھتیں، وہ معاشرہ مشینوں کا معاشرہ ہے۔ لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ آج بھی ایسے معاشرے میں مقدس مجید جیسی شخصیات موجود ہیں جو اس حوالے سے ہم نوجوان نسل کی نمائندگی کر رہی ہیں اور تاریک شب میں چراغ کے مانند ہیں۔ اختتام پر پیرزادہ قاسم صاحب کا ایک شعر: میں ایسے فرد کو زندوں میں کیا شمار کروں جو سوچتا بھی نہیں، خواب دیکھتا بھی نہیں (مہرعلی) Leave a Reply Cancel Reply Logged in as admin. Edit your profile. Log out? Required fields are marked * Message*

Blog, Meher Ali

ادب اور انسانی ذہن

مہرعلی تاریخ کے ہر موڑ پر فنونِ لطیفہ اور ادب کسی نہ کسی صورت میں انسانی زندگی میں موجود رہے ہیں۔ گویا انسان ازل سے اپنے اندر کا اظہار کرتا آیا ہے چاہے وہ اساطیر ہوں،غاروں میں بنی تصاویر ہوں یا پھر لوک شاعری اور کہانیاں ۔۔۔۔ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسان کا پتھروں پر مختلف نقش بنانا، ان دیکھے دیوتاؤں اور بھوت پریت کو اپنی داستانوں اور نظموں کا حصہ بنانا دراصل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ ایک ایسی دنیا کا متلاشی ہے جو اس یہاں اسے میسر نہیں یا یہ بھی کہنا درست ہوگا کہ اس کا وجود اُس کی جسم کے قیدخانے سے فرار چاہتا ہے اس لیے وہ ایسی ایسی دنیائیں تخلیق کرتا ہے یا پھر فرائڈ کے مطابق وہ معاشرے کی لگائی پابندیوں سے بچنے کی خاطر اپنی جبلی خواہشات کا اظہار ایسے طریقوں سے کرتا ہے جو معاشرے میں قابلِ قبول ہوں یعنی فن اور ادب۔ اس کو نفسیات میں Sublimation کا نام دیا گیا ہے۔۔۔یہاں تک کہ سائنس اور فلسفہ، جو کہ تجربات، عقل اور منطق کی روشنی میں سچ کی تلاش کرتے ہیں ان میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ کہانیاں شامل ہوجاتی ہیں۔۔۔قدیم فلسفہ سے لے کر جدید سائنس تک ایسی کئی کہانیاں موجود ہیں۔۔نیوٹن کے سر پر سیب کا گرنا اور اس سے کششِ ثقل کا دریافت ہونا جو کہ سائنسی دنیا کا بہت مشہور واقعہ ہے، سٹیفن ہاکنگ کے نزدیک ایک افسانے کے سوا کچھ نہیں۔۔۔ انسان کی اس فطرت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ فن اور ادب انسانی ذہن کی تخلیق ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے ذہن پر گہرے اثرات بھی رکھتے ہیں۔۔۔۔ڈیجیٹل دور نے جہاں انسان کے کئی مسائل کا خاتمہ کیا ہے وہیں نئے مسائل کو جنم بھی دیا ہے اور پہلے کی طرح اب وہ مسائل خارجی نہیں بلکہ داخلی ہیں۔۔۔ہم دیکھتے ہیں کہ وقت کے قدم جیسے جیسے آگے بڑھ ہیں ویسے ویسے انسان کے ذہنی مسائل میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، اس کی نفسیات مزید الجھاؤ کا شکار ہورہی ہے ان کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں۔۔۔۔ایسے میں فن اور ادب بہت حد تک مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔۔۔ہم جانتے ہیں کہ انسانی ذہن تصاویر اور علامتوں میں سوچتا ہے حتیٰ کہ اسے خواب میں بھی ایسی ہی علامتوں اور تصاویر کا سامنا ہوتا ہے۔۔۔۔انسان جب ماضی کے دریچوں میں جھانکتا ہے تو پرانے واقعات تصاویر کی صورت میں اس کے ذہن کی سکرین پر نمودار ہوتے ہیں، ہوبہو حال اور مستقبل کے بارے میں کہا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔انسان جب کسی فن پارے سے آنکھ ملاتا ہے یا پھر کسی ناول، افسانے یا شعر کو پڑھتا ہے تو اپنے ذہن میں ایسی ہی تصاویر کو جنم دیتا ہے۔۔۔مثال کے طور پر Albert Camus کے ناول The Stranger کو اگر پڑھا جائے تو آغاز سے اختتام تک ہم الفاظ پڑھ کر اپنے ذہن میں تصاویر کو جنم دیتے ہیں اور خود کو اس کردار کی جگہ رکھ دیتے ہیں جو اپنی زندگی میں شدید لایعنیت کا شکار ہے اور اسے کسی بھی بڑے سانحے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔یہاں میں کچھ مثالیں شاعری سے دے کر اپنی بات کو مزید واضح کروں گا۔۔۔ زرد ملبوس پہن کر وہ چمن میں آئیوہ بھی منجملۂ تصویرِ خزاں لگتی ہے (ثروت حسین) اس شعر کو پڑھتے ہوئے ایک dynamic picture اچانک ذہن کے کینوس پر ابھر آتی ہے جس میں زرد لباس پہنے ہوئے ایک حسین عورت خزاں کی طرح رقص کررہی ہے اور یقیناً یہ تصویر ہم سب کی اپنی اپنی ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یاد ہے وہ رات زیرِ آسمانِ نیلگوں یاد ہے مجھ کو وہ تابستاں کی راتچاند کی کرنوں کا بے پایاں فسوں، پھیلا ہواسرمدی آہنگ برساتا ہوا ہر چار سواور مرے پہلو میں تو۔۔۔۔۔ (ن ،م راشد) راشد کی نظم کے اس حصے میں ایک مکمل تصویر بنتی ہوئی نظر آرہی ہے۔۔۔آسمانِ نیلگوں، رات، چاند کی کرنیں، محبوب کا پہلو میں ہونا یہ سب الفاظ اس تصویر کو جنم دیتے ہیں۔۔۔   A touch of cold in the Autumn night—I walked abroad,And saw the ruddy moon lean over a hedgeLike a red-faced farmer.I did not stop to speak, but nodded,And round about were the wistful starsWith white faces like town children (T.E HULME) مشہور انگریزی امیجسٹ شاعر کی یہ نظم بھی میرے خیال کی ترسیل کےلیے ایک اچھی مثال ہے۔۔۔اگر آپ touch of cold, autumn night, ruddy moon, red-faced farmer, white faces childern, جیسے الفاظ پر غور کریں تو کتنی ہی دلکش تصاویر بنتی ہیں جو ہمارے وجود میں سرایت کرکے مختلف احساسات پیدا کرتی ہیں۔۔۔۔گویا ہم کہہ سکتے ہیں فن اور ادب انسان کی قوتِ متخیلہ کو بڑھا دیتے ہیں اور اسے اپنے اندر سے نکلنے کی راہ دیتے ہیں۔۔۔۔ادب پڑھنے کے ساتھ ساتھ ادب تخلیق کرنا بھی کافی حد تک ذہنی الجھاؤ یا ہمارے اندر موجود کئی ایسے احساسات اور جذبات کو purify کرسکتا ہے جسے ارسطو اپنی بوطیقا میں catharsis کا نام دیتا ہے۔۔۔۔بیسویں صدی کی انگریزی شاعری میں ایک تحریک confessionist poetry کے نام سے ہے جس میں شاعروں نے اپنے زندگی میں ہوئے واقعات کو براہِ راست اپنی شاعری کے ذریعے بیان کرنے کی کوشش کی۔۔۔سلویا پلاتھ اس حوالے سے ایک بہت اہم نام ہے۔۔۔۔بلاشبہ اس تحریک کا مقصد بھی یہی تھا کہ فرد جن چیزوں کا سامنا کرتا ہے اور جو محسوس کرتا وہ کھل کر بیان کردے۔۔۔ادب تخلیق کرنا انسان کے لاشعور میں موجود فنا کے خوف کو بھی کم کرتا ہے۔۔۔۔موت اور فنا کا خوف انسان کے وجود کا حصہ ہے۔۔۔وہ اسے طاقِ نسیاں پر بھی رکھ دے تو یہ خوف اس کے لاشعور میں موجود رہتا ہے۔۔۔ایسے میں فن اور ادب کی تخلیق انسان کے اس خوف کو ختم نہیں تو کم ضرور کردیتی ہے۔۔۔ہم آج بھی قدیم انسان کو غار میں بنے نقوش سے پہچانتے ہیں یا اسی طرح دنیا کے بڑے بڑے دانشوروں اور شاعروں کو آج ہم صرف ان کے الفاظ کی وجہ سے یاد کرتے ہیں۔۔۔۔ادب کا انتخاب کرنا بھی بے حد ضروری ہے خاص طور پر اس صورت میں جب کوئی ذہنی الجھاؤ کا شکار انسان ادب کو مطالعہ کرے۔۔۔ایسی صورت میں ایسے ادب کو منتخب کرنا چاہیے

Poetry, Blog, Meher Ali

صبح کی پہلی کرن مهر علی

عنوان : صبح کی پہلی کرن ( مهر علی) شام اتری آسماں کی سیڑھیوں سے تو تری یاد آئی ہے صبح کی پہلی کرن! دیکھ میری ذات کے تاریک بن میں کس قدر تنہائی ہے صبح کی پہلی کرن! نادیہ سے یوں کم نامیوں کے پھول چنا چھوڑو سے گیلی گیلی سبز سی اس گھاس پریوں ٹہلنا چھوڑ دے رات کا در توڑ دے صبح کی پہلی کرن! اں کی سیڑھیاں نیچے اتر جلدی جلدی آسماں کی ۔ اور میری ذات کے تاریک بن کی سیر کرڈھونڈ اس تاریک بن میں شادمانی کا ہرن صبح کی پہلی کرن! Leave a Comments Cancel Reply Logged in as admin. Edit your profile. Log out? Required fields are marked * Message*

Scroll to Top