اب مارل بولے گا(قسط 3)
اب مارل بولے گا(قسط 3) مارل بہت کچھ دیکھ رہا تھا۔ کچھ اسے سمجھ آتا تھا اور بہت کچھ وہ سمجھے بغیر دیکھ بھی رہا تھا اور جھیل بھی رہا تھا۔ وہ بارہ دری میں کھڑا پہاڑی سے نیچے گزرتے سندھو دریا کو دیکھ رہا تھا۔ سورج ڈھل رہا تھا اور کچھ میر بحر اپنی آبی اشیانوں کو کھیتے بہاؤ کی مخالف سمت جارہے تھے ان میں سے ہی ایک ملاح سر سامونڈری میں شاہ لطیف کا کلام اونچی آواز میں گاتا جارہا ہے۔ کچھ ہی دیر پہلے یہاں محفل سجی ہوئی تھی۔ وہاں بھی شاہی راگی شاہ سائیں کا کلام سر سامونڈری ہی گا چکے تھے۔ مگر ملاح کی آواز میں ایک استحقاق تھا۔ جیسے اسے بات کا فخر ہو کہ سُر اس کے لیے ہی تخلیق کیا گیا ہے۔ فضا میں ملاح کے گیت اور چپوؤں کی پانی میں غوطے لگانے کی آوازیں مدھر آہنگ کے ساتھ بتدریج بڑھتے بڑھتے معدوم ہونے لگیں۔ مارل کی نظریں بہت دور تک کشتیوں کا تعاقب کرتی رہیں اور پھر کناروں پہ آکر ٹک گئیں جہاں سندھو چھلکنے کو بےتاب لگ رہا تھا۔ اس نے سنا تھا سندھو کی موجیں ہر کچھ سال بعد قربانی مانگتی ہیں تبھی اس کی روانی رہتی ہے۔ اسے نہیں پتا تھا کہ اس کے اندر کا سندھو اگر چھلکا تو کتنی قربانیاں لے گا۔ مگر اسے یہ اندازہ تھا کہ اس کی قربانی یقینی ہے۔ ————— گھر پہ وقتاً فوقتاً شروع ہو جانے والی بحثوں کا اثر یہ ہوا کہ اب تقریباً روز ہی اس کی اور نور علی کی بات چیت تلخ کلامی پہ ختم ہونے لگی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ وہ گاؤں کی زندگی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جان سکے اور نور علی کو لگتا تھا کہ وہ گاؤں میں چلتے مسائل پہ اسے قصور وار ٹہرا رہی ہے۔ وہ بے دھیانی میں اپنی میز پہ بیٹھی بال پوائنٹ کی نب کبھی کھولتی تھی کبھی بند کرتی تھی۔ جنوری کی سرد خاموش دوپہر میں پین کھلنے بند ہونے کا شور پورے کمرے میں گونج رہا تھا لیکن اس کے دماغ میں مچلتے شور کے درمیان یہ آوازیں شاید بالکل ہی غیر اہم تھیں کہ وہ انہیں خود تک رسائی کا موقع ہی نہیں دے رہا تھا۔وہ پچھلے دو ماہ سے اتنے شدید ذہنی دباؤ میں آگئی تھی کہ کبھی کبھی نہ چاہتے ہوئے بھی اس لمحے کو کوستی جب نور علی نے جذبات کو الفاظ دئیے تھے۔ انہی الفاظ کو جن کی منتظر وہ مہینوں سے تھی۔“فئیری۔۔۔۔۔ فئیری۔۔۔۔۔” شمائلہ کی آواز پہ اسے احساس ہوا کہ وہ اکیلی نہیں ہے۔ اس نے پین میز پہ رکھ دیا۔ کیوں کہ شمائلہ کی نظریں اس کے پین پہ ہی تھیں۔ وہ شاید کام کرتے ہوئے توجہ نہیں رکھ پارہی تھی۔“تم کب واپس آئیں؟” اسے تھوڑی حیرت ہوئی کہ اسے شمائلہ کے آنے پہ پتا کیوں نہیں چلا۔“کہاں سے واپس؟” “لنچ سے یار.” “محترمہ میں گئی کب تھی کھانے کے لیے؟” فرزانہ نے لاعلمی والے انداز میں کندھے اچکائے۔“آپ کو اپنے مجنوں سے فرصت ملے تو احساس ہو کہ باقی دنیا میں کیا چل رہا ہے۔” شمائلہ کے لہجے میں دوستانہ شرارت تھی۔ وہ ابھی تک اپنی سوچوں کے اثر میں تھی کہ مسکرا بھی نہیں سکی۔ “خیریت ہے؟ نور علی سے کوئی جھگڑا ہوا کیا؟” ” نہیں جھگڑا تو نہیں کہہ سکتے، اور اس کی وجہ سے میں پریشان ہوں بھی نہیں۔ یہ بحثیں ایک طرح سے ہمارے تعلق کا حصہ ہیں۔” “یہ وہ والا فلسفہ ہے کہ لڑائی سے محبت بڑھتی ہے۔؟” شمائلہ نے خفیف سا قہقہہ لگایا۔“نہیں اس مطلب میں نہیں۔ میرا مطلب ہے کہ ہم ہر موضوع پہ بات کر سکتے ہیں۔ اگر بحث میں ایک دوسرے سے متفق نہ بھی ہوں تو ایک دوسرے کے جذبات کے حوالے سے شک میں نہیں پڑتے۔” “یہ تو اچھی بات ہے۔ بیٹا ایسے میاں قسمت والیوں کو ملتے ہیں جن سے بات کی جاسکے۔ تمہیں تو میاں کی آفر میں دوست مفت مل رہا ہے۔” شمائلہ کے لہجے میں پرخلوص ستائش تھی۔ ان دونوں کو اس سرکاری ادارے میں ساتھ کام کرتے ہوئے تیسرا سال تھا۔ فرزانہ کی نوکری کو سات سال ہونے والے تھے شمائلہ اس سے نسبتاً سینئیر تھی۔ وہ چالیس سالہ، شادی شدہ عورت تھی۔ اس کی شخصیت میں واضح محسوس ہونے والا گھریلو سا احساس تھا۔ جو اکثر یہاں کے سرکاری اداروں خاص طور سے تعلیم سے متعلق محکموں میں موجود اکثر خواتین میں محسوس ہوتا ہے کہ اگر آپ ان سے ان کے آفس سے باہر کہیں ملیں تو کبھی نہ جان سکیں کہ یہ “ورکنگ ویمن” ہیں۔ بلکہ شاید وہ نوکری والی ہوتی بھی اسی لیے ہیں کیوں کہ نوکری سرکاری ہے۔ شمائلہ نے فرزانہ کو اپنی شادی کی جو تصاویر دکھائی تھیں ان سے احساس ہوتا تھا کہ وہ اس وقت ایک خوش شکل، خوش پوش لڑکی رہی تھی۔ لیکن اب شادی کے تقریباً تیرہ سال کے بعد اس کے چہرے پہ مستقل تھکن کے احساس نے نقوش میں اپنی جگہ بنا لی تھی۔ جسے وہ صبح صبح سفید فیس پاوڈر اور کاسنی لپ اسٹک سے کسی قدر مدھم کرنے میں کامیاب ہوجاتی تھی لیکن چھٹی کا وقت آنے تک مٹا مٹا سا میک اپ اسے مزید تھکن زدہ بنا دیتا تھا۔ اس وقت بھی اس کی لپ اسٹک قدرے مٹ چکی تھی اور بولتے ہوئے ہونٹوں کا اصل رنگ اندرونی گوشوں سے جھلک رہا تھا۔نور علی اور فرزانہ کا رومان شمائلہ کے سامنے ہی اپنے رنگ بدلتا یہاں تک پہنچا تھا۔ فرزانہ بہت غور سے شمائلہ کو بولتے دیکھ رہی تھی لیکن اس کا دماغ اپنے مسئلے میں ہی الجھا ہوا تھا۔ اسے مناسب لگا کہ وہ اس حوالے سے شمائلہ سے مشورہ کرلے۔ “تم بتاؤ! تمہارے خیال میں ہمارے گھریلو ماحول اور زبان کا فرق ہمارے آپس کے تعلق پہ بھی اثر کر سکتا ہے؟” فرزانہ کا لہجہ بتا رہا تھا کہ وہ چاہتی ہے شمائلہ اسے سب اچھا ہونے کا کہہ دے۔ “ہاں کر تو سکتا ہے، بلکہ اکثر گھروں میں کرتا ہے۔ تمہارے والدین شاید اسی لیے پریشان ہیں کیوں کہ ایسی شادیاں اکثر جھگڑوں کی نظر ہی ہوجاتی ہیں۔ دونوں فریقین تعلق کو اپنی روایات کے مطابق چلانا چاہتے



