Absar Fatima

Absar Fatima

Absar Fatima

اب مارل بولے گا(قسط 3)

اب مارل بولے گا(قسط 3) مارل بہت کچھ دیکھ رہا تھا۔ کچھ اسے سمجھ آتا تھا اور بہت کچھ وہ سمجھے بغیر دیکھ بھی رہا تھا اور جھیل بھی رہا تھا۔ وہ بارہ دری میں کھڑا پہاڑی سے نیچے گزرتے سندھو دریا کو دیکھ رہا تھا۔ سورج ڈھل رہا تھا اور کچھ میر بحر اپنی آبی اشیانوں کو کھیتے بہاؤ کی مخالف سمت جارہے تھے ان میں سے ہی ایک ملاح سر سامونڈری میں شاہ لطیف کا کلام اونچی آواز میں گاتا جارہا ہے۔ کچھ ہی دیر پہلے یہاں محفل سجی ہوئی تھی۔ وہاں بھی شاہی راگی شاہ سائیں کا کلام سر سامونڈری ہی گا چکے تھے۔ مگر ملاح کی آواز میں ایک استحقاق تھا۔ جیسے اسے بات کا فخر ہو کہ سُر اس کے لیے ہی تخلیق کیا گیا ہے۔ فضا میں ملاح کے گیت اور چپوؤں کی پانی میں غوطے لگانے کی آوازیں مدھر آہنگ کے ساتھ بتدریج بڑھتے بڑھتے معدوم ہونے لگیں۔ مارل کی نظریں بہت دور تک کشتیوں کا تعاقب کرتی رہیں اور پھر کناروں پہ آکر ٹک گئیں جہاں سندھو چھلکنے کو بےتاب لگ رہا تھا۔ اس نے سنا تھا سندھو کی موجیں ہر کچھ سال بعد قربانی مانگتی ہیں تبھی اس کی روانی رہتی ہے۔ اسے نہیں پتا تھا کہ اس کے اندر کا سندھو اگر چھلکا تو کتنی قربانیاں لے گا۔ مگر اسے یہ اندازہ تھا کہ اس کی قربانی یقینی ہے۔ ————— گھر پہ وقتاً فوقتاً شروع ہو جانے والی بحثوں کا اثر یہ ہوا کہ اب تقریباً روز ہی اس کی اور نور علی کی بات چیت تلخ کلامی پہ ختم ہونے لگی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ وہ گاؤں کی زندگی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جان سکے اور نور علی کو لگتا تھا کہ وہ گاؤں میں چلتے مسائل پہ اسے قصور وار ٹہرا رہی ہے۔ وہ بے دھیانی میں اپنی میز پہ بیٹھی بال پوائنٹ کی نب کبھی کھولتی تھی کبھی بند کرتی تھی۔ جنوری کی سرد خاموش دوپہر میں پین کھلنے بند ہونے کا شور پورے کمرے میں گونج رہا تھا لیکن اس کے دماغ میں مچلتے شور کے درمیان یہ آوازیں شاید بالکل ہی غیر اہم تھیں کہ وہ انہیں خود تک رسائی کا موقع ہی نہیں دے رہا تھا۔وہ پچھلے دو ماہ سے اتنے شدید ذہنی دباؤ میں آگئی تھی کہ کبھی کبھی نہ چاہتے ہوئے بھی اس لمحے کو کوستی جب نور علی نے جذبات کو الفاظ دئیے تھے۔ انہی الفاظ کو جن کی منتظر وہ مہینوں سے تھی۔“فئیری۔۔۔۔۔ فئیری۔۔۔۔۔” شمائلہ کی آواز پہ اسے احساس ہوا کہ وہ اکیلی نہیں ہے۔ اس نے پین میز پہ رکھ دیا۔ کیوں کہ شمائلہ کی نظریں اس کے پین پہ ہی تھیں۔ وہ شاید کام کرتے ہوئے توجہ نہیں رکھ پارہی تھی۔“تم کب واپس آئیں؟” اسے تھوڑی حیرت ہوئی کہ اسے شمائلہ کے آنے پہ پتا کیوں نہیں چلا۔“کہاں سے واپس؟” “لنچ سے یار.” “محترمہ میں گئی کب تھی کھانے کے لیے؟” فرزانہ نے لاعلمی والے انداز میں کندھے اچکائے۔“آپ کو اپنے مجنوں سے فرصت ملے تو احساس ہو کہ باقی دنیا میں کیا چل رہا ہے۔” شمائلہ کے لہجے میں دوستانہ شرارت تھی۔ وہ ابھی تک اپنی سوچوں کے اثر میں تھی کہ مسکرا بھی نہیں سکی۔ “خیریت ہے؟ نور علی سے کوئی جھگڑا ہوا کیا؟” ” نہیں جھگڑا تو نہیں کہہ سکتے، اور اس کی وجہ سے میں پریشان ہوں بھی نہیں۔ یہ بحثیں ایک طرح سے ہمارے تعلق کا حصہ ہیں۔” “یہ وہ والا فلسفہ ہے کہ لڑائی سے محبت بڑھتی ہے۔؟” شمائلہ نے خفیف سا قہقہہ لگایا۔“نہیں اس مطلب میں نہیں۔ میرا مطلب ہے کہ ہم ہر موضوع پہ بات کر سکتے ہیں۔ اگر بحث میں ایک دوسرے سے متفق نہ بھی ہوں تو ایک دوسرے کے جذبات کے حوالے سے شک میں نہیں پڑتے۔” “یہ تو اچھی بات ہے۔ بیٹا ایسے میاں قسمت والیوں کو ملتے ہیں جن سے بات کی جاسکے۔ تمہیں تو میاں کی آفر میں دوست مفت مل رہا ہے۔” شمائلہ کے لہجے میں پرخلوص ستائش تھی۔ ان دونوں کو اس سرکاری ادارے میں ساتھ کام کرتے ہوئے تیسرا سال تھا۔ فرزانہ کی نوکری کو سات سال ہونے والے تھے شمائلہ اس سے نسبتاً سینئیر تھی۔ وہ چالیس سالہ، شادی شدہ عورت تھی۔ اس کی شخصیت میں واضح محسوس ہونے والا گھریلو سا احساس تھا۔ جو اکثر یہاں کے سرکاری اداروں خاص طور سے تعلیم سے متعلق محکموں میں موجود اکثر خواتین میں محسوس ہوتا ہے کہ اگر آپ ان سے ان کے آفس سے باہر کہیں ملیں تو کبھی نہ جان سکیں کہ یہ “ورکنگ ویمن” ہیں۔ بلکہ شاید وہ نوکری والی ہوتی بھی اسی لیے ہیں کیوں کہ نوکری سرکاری ہے۔ شمائلہ نے فرزانہ کو اپنی شادی کی جو تصاویر دکھائی تھیں ان سے احساس ہوتا تھا کہ وہ اس وقت ایک خوش شکل، خوش پوش لڑکی رہی تھی۔ لیکن اب شادی کے تقریباً تیرہ سال کے بعد اس کے چہرے پہ مستقل تھکن کے احساس نے نقوش میں اپنی جگہ بنا لی تھی۔ جسے وہ صبح صبح سفید فیس پاوڈر اور کاسنی لپ اسٹک سے کسی قدر مدھم کرنے میں کامیاب ہوجاتی تھی لیکن چھٹی کا وقت آنے تک مٹا مٹا سا میک اپ اسے مزید تھکن زدہ بنا دیتا تھا۔ اس وقت بھی اس کی لپ اسٹک قدرے مٹ چکی تھی اور بولتے ہوئے ہونٹوں کا اصل رنگ اندرونی گوشوں سے جھلک رہا تھا۔نور علی اور فرزانہ کا رومان شمائلہ کے سامنے ہی اپنے رنگ بدلتا یہاں تک پہنچا تھا۔ فرزانہ بہت غور سے شمائلہ کو بولتے دیکھ رہی تھی لیکن اس کا دماغ اپنے مسئلے میں ہی الجھا ہوا تھا۔ اسے مناسب لگا کہ وہ اس حوالے سے شمائلہ سے مشورہ کرلے۔ “تم بتاؤ! تمہارے خیال میں ہمارے گھریلو ماحول اور زبان کا فرق ہمارے آپس کے تعلق پہ بھی اثر کر سکتا ہے؟” فرزانہ کا لہجہ بتا رہا تھا کہ وہ چاہتی ہے شمائلہ اسے سب اچھا ہونے کا کہہ دے۔ “ہاں کر تو سکتا ہے، بلکہ اکثر گھروں میں کرتا ہے۔ تمہارے والدین شاید اسی لیے پریشان ہیں کیوں کہ ایسی شادیاں اکثر جھگڑوں کی نظر ہی ہوجاتی ہیں۔ دونوں فریقین تعلق کو اپنی روایات کے مطابق چلانا چاہتے

Novel, Absar Fatima

اب مارل بولے گا

اب مارل بولے گا اسے نہیں یاد کہ اس کے ماں باپ نے اس کا نام کیا رکھا تھا۔ جب اس نے ہوش سنبھالا خود کو غلاموں کے گروہ میں دیکھا۔ وہ اتنا جانتا تھا کہ وہ سندھ میں ہے۔ مگر اسے یہ نہیں پتا تھا کہ وہ سندھ سے ہے یا نہیں۔ کیا اسے کہیں سے ہونا تھا؟ کیا غلاموں کا کوئی وطن ہوتا ہے؟کوئی اسے مور بلاتا، کوئی مورو اور کوئی مارل۔ اس نے کبھی جاننے کی کوشش نہیں کی کہ ان ناموں کے مطلب کیا تھے۔بس اتنا کافی تھا کہ اسے پتا تھا کہ کس لفظ پہ اسے جان لینا ہے کہ یہ حکم اس کے لیے تھا۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آفس میں داخل ہوتے ہی بائیں طرف پہلا کمرہ فرزانہ کا آفس تھا۔ فرزانہ اندر کی جانب مڑی تو نور علی نے اس کی طرف الوداعی مسکراہٹ سے دیکھا اور آگے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔فرزانہ اپنے کمرے کے دروازے پہ ہی ایک بازو چوکھٹ پہ ٹکا کے اسے جاتا دیکھ رہی تھی۔محبت سے نہیں۔۔۔۔ پر سوچ انداز میں۔ نور علی اپنے کمرے میں داخل ہونے لگا تو اسے اندازہ ہوا کہ فرزانہ ابھی تک دروازے پہ ہی کھڑی تھی اس نے مبہم سے سوالیہ انداز میں دیکھا اور فرزانہ اتنے ہی مبہم انداز میں انکاری انداز میں سر ہلا کے کمرے میں مڑ گئی۔ ان کی ذہنی ہم آہنگی اتنی ہی مضبوط تھی کہ دونوں ایک دوسرے کی نظروں کے مطلب بھی سمجھ جاتے تھے۔ اس کے باوجود فرزانہ، نور علی کی شخصیت کے کچھ پہلو نہیں سمجھ پارہی تھی۔ ممکن ہے نور علی بھی ایسی ہی کیفیات سے گزرتا ہو۔ لیکن دونوں نے کبھی اس پہ بات نہیں کی۔ فرزانہ بات کرنا چاہتی تھی لیکن اسے وہ الفاظ نہیں مل پارہے تھے جن کی مدد سے وہ اپنے احساسات واضح کرسکے اور نور علی کو یہ احساس نہ ہوکہ فرزانہ اسے کسی قسم کی عدالت میں جوابدہی کے لیے کھڑا کر رہی ہے۔اس نے ڈیڑھ سال کے عرصے میں یہ اچھی طرح جان لیا تھا کہ نور علی حساس طبیعت شخص ہے لیکن اس کے باوجود سیاسی اور معاشرتی مسائل پہ بات کرتے ہوئے چڑ جاتا تھا۔ یا شاید صرف تب چڑتا تھا جب بات میں حوالے کے طور پہ اس کے گاؤں کا تذکرہ نکل آتا تھا۔فرزانہ نے اس بات پہ پہلے اتنا غور نہیں کیا تھا لیکن پچھلے دو ماہ سے اس نے ان معاملات کو الگ انداز میں دیکھنا شروع کیا تھا جب نور علی نے اس سے شادی کی خواہش ظاہر کی تھی۔ آج بھی وہ اسی حوالے سے سوچ رہی تھی۔ وہ ذہنی طور پہ بالکل تیار رہنا چاہتی تھی کہ اگر وہ نور علی سے شادی کرتی ہے تو اسے اس کے گاؤں میں کس قسم کے ماحول کاسامنا ہوگا۔دیکھا جائے تو فرزانہ کی گاؤں کے ماحول تک رسائی کا ذریعہ صرف اخبار اور خبریں تھیں۔ اور یہ کوئی مثبت تصویر پیش نہیں کرتے تھے۔ اسی لیے وہ اب بات بات میں نور علی سے اس کے گاؤں کی بات کرنے لگی تھی تاکہ جان سکے۔ یا شاید اس لیے تاکہ اپنی “غلط فہمی” دور کر سکے جو غلط فہمی تھی بھی یا نہیں اسے بالکل اندازہ نہیں تھا۔کم و بیش یہی پریشانی اس کے گھر والوں کو بھی تھی جس کی بنیاد پہ ابھی تک کوئی واضح فیصلہ ہوتا نظر نہیں آرہا تھا۔بلکہ اصل میں مسئلہ شروع ہی تب ہوا تھا جب اس نے گھر پہ بتایا۔ ابو اور امی دونوں کے الگ الگ تحفظات تھے۔ ابو کو فکر تھی کہ رشتے دار اعتراض کریں گے۔ ہم زبان ہوتا تو چلو کوئی جان پہچان کا بہانہ نکالا جاسکتا تھا۔ مگر یہاں تو زبان بھی الگ ذات بھی الگ، سندھی وہ بھی گاؤں کا۔ اور فرزانہ کا خاندان وہ تھا کہ جب دو بزرگ مل بیٹھیں اور ہندوستان سے ہجرت کا واقعہ نہ نکلے یہ ممکن ہی نہیں تھا۔ یہ الگ بات تھی کہ اب شاید گن کے دو یا چار ہی ایسے بزرگ رہ گئے تھے جنہوں نے بچپن میں بٹوارہ ہوتے دیکھا تھا۔ فرزانہ کے اپنے والدین پچاس کی دہائی میں ہی پیدا ہوئے تھے۔ اور وہ اپنے والدین کی سب سے بڑی اولاد تھی۔ انہوں نے بھی ہندوستان سے آنے کے بس قصے ہی سنے تھے۔ ہاں لیکن مہاجر ہونے کا فخر ضرور نسل در نسل منتقل ہورہا تھا۔ اس بات کا فخر کہ ملک کی بنیادوں میں جو خون ہے وہ ہمارے ہی آباؤاجداد کا تھا۔ اس بات کا فخر کہ قومی زبان ہماری مادری زبان ہے۔ ابو نے شہر میں ہونے والے سندھی مہاجر جھگڑے بہت قریب سے دیکھے تھے کالج میں جن دوستوں کے ساتھ کینٹین میں گپیں لگاتے تھے انہی سے پٹے بھی تھے۔ اور موقع ملنے پہ پیٹا بھی تھا۔اب وہ جھگڑے تو نہیں تھے۔ دوبارہ سندھی دوست بھی بنے، آفس کے ساتھیوں میں بھی سندھی تھے۔ پڑوس میں بھی کئی گھر اب سندھی خاندانوں کے تھے لیکن بیٹی ایسے گھر میں دیتے ہوئے لگتا تھا جیسے ساری قوم ان پہ انگلی اٹھائے کھڑی ہے “تم ہو جو سندھو دیش بنانے والوں کی افرادی قوت بڑھا رہے ہو، تم ہو جو ملک میں ڈیم بننے سے روکنے والوں کو رشتے دار بنا رہے ہو۔ اب تم کیسے کہو گے کہ تمہارا تو فلاں زندہ ہے اسی لیے ترقی نہیں کر پارہے۔ اب تمہاری بیٹی کے حجلہء عروسی میں بی بی کی تصویر لگی ہوگی۔” امی کو ڈر تھا کہ فرزانہ، نور علی سے پسند کی شادی کرے گی تو نور علی کے گھر والے کاری کرنے نہ آجائیں۔ ان کی دوسری بڑی پریشانی یہ تھی کہ وہ شادی کرکے گاؤں چلی بھی گئی تو لیٹرین باتھ روم کا کیا کرے گی۔ بندہ کھلے عام لکڑیوں پہ کھانا پکا سکتا ہے۔ لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فرزانہ کے لیے یہ تمام اعتراض بالکل غیر منطقی تھے اس کے لیے تو گاؤں کے مسائل باعث فکر ہی اس لیے تھے کیوں کہ اسے لگتا تھا کہ اسے جتنی انسیت اپنے شہر سے ہے اتنی ہی انسیت گاؤں سے بھی ہے وہی اپنائیت کہ وہ مختلف سہی مگر اپنا ہے۔گھر پہ وقتاً فوقتاً شروع ہو جانے والی بحثوں کا اثر یہ ہوا کہ اب تقریباً روز ہی اس کی

Novel, Absar Fatima

!اب مارُل بولے گا

!اب مارُل بولے گا ابصار فاطمہ قسط نمبر 1 او مارل بچڑا! ادھر آ۔۔۔ حاکم سائیں کے وسیع دربار میں جھاڑو دیتے مارل کے ہاتھ کچھ لمحے کو رکے اور اس کے معصوم چہرے پہ خوف کا سایہ لہرایا۔ حاکم سائیں نے دوبارہ اسے دربار سے ملحقہ حجرے میں بلایا تھا۔ وہ تاریک حجرہ جس کی تاریکی شاید صرف مارل کو نظر آتی تھی۔ ہر دفعہ وہ تاریکی گہری ہوتی جارہی تھی اور ساتھ ہی مارل کی چپ بھی۔ وہ غلام تھا اور اس حاکم سائیں کا ہر حکم بجا لانا اس کا فرض۔ ————- “یہ تمہارے علاقے کے ابو کبھی کچھ نہیں کریں گے تم لوگ پتا نہیں کیوں جانتے بوجھتے بھی ہر بار اسی شخص کو ووٹ دیتے ہو۔ مجھے تو لگتا ہے تم لوگ خود بھی حالات نہیں بدلنا چاہتے۔” اس کی نظریں اپنی پیالی پہ تھیں جس میں پڑے دو ٹی بیگز کو وہ ہر ممکن حد تک کھولتے پانی میں گھول دینا چاہتی تھی۔ یا شاید اس کی نظریں ٹی بیگز پہ ضرور تھیں مگر دماغ کا محور اپنی بات تھی اسی لیے بات ختم ہوتے ہی اس نے ٹی بیگز کو چمچ پہ رکھ کر آخری بار نچوڑا اور چمچ سمیت بسکٹ کی پلیٹ میں رکھ دیا۔ “فیری یار, تم اتنی کڑوی چائے کیسے پی لیتی ہو؟”“نور یار، تم اپنے ہی علاقے کے مسائل سے اتنے لا تعلق کیسے رہ لیتے ہو؟”۔ نور علی چند لمحوں تک اسے بغیر پلکیں جھپکائے دیکھتا رہا۔ پھر جھنجھلاہٹ آمیز انداز میں کندھے جھٹکے۔ اس کے انداز میں فرزانہ کے لیے تو نہیں لیکن اس کی بات کے لیے واضح ناگواری تھی۔ “کچھ بولو گے نہیں؟”” کیا بولوں یار؟ ہمیں ایک گھنٹہ ملتا ہے لنچ کا، جو اکثر پورا بھی نہیں ملتا اور تمہیں اپنی بات کرنے کی بجائے سیاست ہی کیوں یاد آتی ہے؟” اس نے اپنے سامنے رکھی چائے کی پیالی ایک طرف کردی اور میز پہ دونوں کہنیاں رکھ کے تھوڑا آگے جھک کے بیٹھ گیا۔“آج میں ہاف ڈے کر لیتا ہوں۔ تم بھی کرلو واپس اوپر جانے کی بجائے یہیں بیٹھ کے مسئلہ حل کر لیتے ہیں اور میرے گاؤں کو فرانس بنا کے ہی اٹھیں گے۔” اس کی جھنجھلاہٹ آمیز سنجیدگی پہ فرزانہ ایک دم ہنس پڑی۔ “اچھا ناں ناراض کیوں ہورہے ہو۔ تمہیں پتا ہے مجھے یہ مسائل کتنا اسٹریسڈ کردیتے ہیں۔ تم سے بات نہ کروں تو کس سے کروں۔” “مجھے بالکل مزا نہیں آرہا۔۔۔۔ ہنستی رہو جتنا مرضی۔ مطلب تم لوگ ایسے ظاہر کرتے ہو جیسے شہر میں تو کوئی مسائل ہی نہیں ہیں۔ سارے مسئلے گاؤں میں ہیں وہ بھی میرے گاؤں میں۔” ” نہیں ہیں؟” فرزانہ کا سوال سنجیدہ تھا لیکن انداز شرارتی تھا۔“مطلب مسئلے ہیں۔۔۔۔۔ لیکن ایسے نہیں ہیں جیسے پیش کیے جاتے ہیں۔ وہ بھی اسی ملک کا حصہ ہے جہاں کا شرح خواندگی صرف کاغذات میں بڑھ رہا ہے۔ جہاں صرف نام لکھنے والے کو پڑھا لکھا شمار کیا جاتا ہے۔ نہ میرا گاؤں آسمان سے اترا ہے نہ یہ صوبہ۔” اس کے انداز میں کسی حد تک بے بسی نمایاں تھی۔ فرزانہ کو اس پہ ترس آنے لگا۔ ہر بار وہ یہی کوشش کرتی تھی کہ ان کی بات چیت عمومی مسائل تک رہے لیکن کب اور کیسے بات مسائل سے ہوتی ہوئی سیاست اور خاص طور سے نور علی کے گاؤں تک پہنچ جاتی تھی۔ اسے یہ بھی اندازہ تھا کہ یہ بحث ان کے اچھے خاصے تعلق پہ بھی اثر کر رہی ہے۔ بلکہ صرف اچھا خاصا کہنا تو کافی نہیں تھا اچھا خاصا رومانوی تعلق تھا۔ “اچھا چھوڑو تم چائے تو پیو۔” “ٹھنڈی ہوگئی ہے۔” نور علی کا لہجہ کچھ روٹھا ہوا سا تھا۔ ” ارے مائی فیوڈل لارڈ۔۔۔ معاف فرما دیجیے۔”“یار فیوڈل مت کہا کرو!”” تو نہیں ہو کیا؟” ” بیٹا ہوتا نہ اصلی والا فیوڈل یہاں آفس میں جوتے اور دماغ نہیں گھس رہا ہوتا۔ نہ تمہاری جیسی خود مختار لڑکی سے محبت کی پینگیں بڑھا رہا ہوتا۔” اس نے کہتے ہوئے موبائل اسکرین آن کرکے وقت دیکھا اور میز سے کھڑا ہوگیا۔ ” خود مختار عورت” فرزانہ نے بیچ میں سے بات اچک کر تصحیح کی۔ وہ بھی ساتھ ہی کھڑی ہوگئی تھی۔” بتیس سال کی عورت نہیں ہوتی۔” دونوں کینٹین سے باہر کی طرف بڑھ چکے تھے۔” بتیس سال کی ‘مطلقہ’،۔۔۔ عورت ہی ہوتی ہے۔” اس نے مطلقہ پہ تھوڑا زور دیا۔ کینٹین سے باہر اکا دکا لوگ بر آمدے میں آتے جاتے دکھائی دئیے۔ “اب اس پہ لڑ لو۔” وہ دونوں بات کرتے کرتے لفٹ نظر انداز کرکے زینے کی طرف بڑھ گئے۔ “ارے لڑ نہیں رہی۔ بس ایسے ہی کہہ رہی تھی۔ تمہارے مجھے لڑکی کہہ دینے سے تمہارے اور میرے درمیان موجود عمر کا فرق ختم نہیں ہوجائے گا۔” زینے پہ پہلا موڑ مڑتے ہوئے دونوں کے ہاتھ مبہم سے ٹکرائے۔ نور علی نے غیر محسوس انداز میں فرزانہ کا ہاتھ تھام لیا۔ وہ اس کی طرف دیکھے بغیر بھی بتا سکتا تھا کہ وہ مسکرا رہی ہے۔ صرف لبوں سے نہیں آنکھوں سے بھی۔ ” محترمہ آپ نے ڈگری پڑھ کے لی تھی یا نقل کی تھی۔” “نقل کی تھی۔” اس کے شرارتی طنزیہ لہجے کو وہ بھی اچھی طرح پہچانتی تھی۔ ” اسی لیے۔۔۔” نور علی کے لہجے میں مصنوعی افسوس تھا۔ ” پڑھ کے ڈگری لی ہوتی تو کم از کم یہ لڑکی بڑی نہیں ہونی چاہیے والی غلط فہمی تو نہ ہوتی۔ دو سال کے فرق سے ویسے بھی آپ ضعیفہ نہیں ہوگئیں۔ میرے کام آہی جائیں گی۔” زینے کی تنہائی نے اس کا انداز اور لہجہ بدل دیا تھا۔ بے ساختہ فرزانہ کی مسکراہٹ گہری ہوگئی” یہ ڈبل میننگ جوک بالکل مت کیا کرو میرے ساتھ۔” اس کے لہجے میں بھی مصنوعی ناراضگی تھی۔“سوری خاتون میں رن مرد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بچی کا باپ ہوں اس لیے ذومعنی والے سے کام چلائیں یک معنی والے واضح لطائف برائے بالغین کی توقع مجھ سے ہرگز مت کریں۔” ” رن مرید ہوتا ہے۔” ” وہ اردو میں ہوتا ہے۔ رن مرد مطلب بیوہ مرد۔” ” توبہ۔۔۔۔ تو رنڈوا کہو ناں” “ارے تو سمجھ گئیں ناں کافی ہے۔” آفس کا دروازہ سامنے آتے ہی فرزانہ نے آہستگی سے ہاتھ

Blog, Absar Fatima

احساسِ بے بسی کیا نفسیاتی مسائل جنم دیتا ہے؟

احساس بے بسی کیا نفسیاتی مسائل جنم دیتا ہے ؟  ہم دنیا میں بیک وقت کئی رشتوں، چیزوں، اور کاموں سے جڑے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اور عوامل ہماری زندگی کے بہت سے پہلوؤں پہ اثر کرتے ہیں۔ اور اکثر ہمیں احساسِ بے بسی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ احساسِ بےبسی تب جنم لیتا ہے جب حالات ہماری خواہش سے بہت مختلف ہوں اور ان کا مختلف ہونا ہمیں بے چینی، جھنجھلاہٹ اور کبھی کبھی جذباتی تکلیف میں بھی مبتلا کر دیتا ہے۔ جس نوعیت کے حالات ہوتے ہیں اسی شدت کی احساسِ بے بسی ہوتی ہے۔ مثلاً سردی میں کولڈ ڈرنک پینے کی خواہش پوری نہ ہوپانے پہ جو احساسِ بے بسی ہوگا وہ اس سے بہت مختلف ہوگا جو بیماری میں دوا تک رسائی نہ رکھ پانے پہ ہوگا۔ کچھ حالات میں ہمیں یہ ماننا ضروری ہے کہ ہم ہر وقت ہر کام اپنی خواہش کے مطابق نہیں کر سکتے۔ اور محدود اختیار ہونے میں کوئی بری بات نہیں۔ لیکن کچھ مسائل میں ان حالات پہ قابو پانا اور ان کا حل بہت ضروری ہو جاتا ہے۔ خاص طور سے جہاں مسئلہ آپ کی بقاء کا ہو۔ وہ بقاء کئی پہلوؤں کی حامل ہوسکتی ہے۔ یعنی کبھی آپ مادی اشیاء تک رسائی نہ ہونے پہ احساسِ بے بسی محسوس کرتے ہیں اور کبھی اپنے لیے فیصلے کا اختیار نہ ہونے پہ، کبھی یہ احساسِ بے بسی تب محسوس ہوتا ہے جب کوئی ہمارے ساتھ نامناسب رویہ اختیار کرتا ہے لیکن یا تو اس کی معاشرتی حیثیت یا آپ کی کوئی معاشرتی زمہ داری کی وجہ سے آپ اس کے غلط رویے پہ کوئی ردعمل نہیں دے پاتے یا اسے روک نہیں پاتے۔ اس قسم کا احساس اکثر تب ہوتا ہے جب ہم کسی ابیوسیو یا پرتذلیل تعلق میں ہوں۔ وہ چاہے ہمارے والدین کی طرف سے ہو، بہن بھائیوں کی طرف سے، شریک حیات کی طرف سے، باس کی طرف سے یا دوستوں کی طرف سے۔ اور کچھ حالات میں اولاد کی طرف سے بھی ممکن ہے۔ یہ احساسِ بے بسی ہمیں شدید جذباتی اذیت کا شکار کر دیتا ہے۔ اگر یہ احساسِ بے بسی مستقل ہو تو یہ کئی نفسیاتی مسائل کو جنم دے سکتی ہے۔  کبھی کبھی یہ احساسِ بے بسی مسلسل اعصابی تناؤ کا شکار رکھتی ہے اور بتدریج ہماری شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے۔ پھر حالات بدل بھی جائیں تو ہم خود کو بہت بے بس محسوس کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہم اپنی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکتے جب تک دوسرے لوگ نہ بدل جائیں۔ یہ احساس ہمیں ڈپریشن کی طرف لے جاسکتا ہے۔ مسلسل ایک مایوسی کی کیفیت طاری رہتی ہے کیوں کہ ہمیں کسی بھی فیکٹر پہ اختیار محسوس نہیں ہوتا۔ ہر قدرتی احساس کی طرح یہ احساس بھی وقتی ہو تو پریشانی کی بات نہیں بلکہ یہ ہمیں موقع دیتا ہے کہ جب ہم کسی وجہ سے بے بسی محسوس کر رہے ہیں تو اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اس سچویشن کا مشاہدہ کریں۔ پھر یا تو ان حالات کو قبول کرلیں یا اگر ضروری ہے تو ان حالات کو مثبت انداز میں بدلنے کے اقدامات کرسکیں۔ لیکن جب یہ احساس مسلسل طاری رہنے لگے تو یہ ہماری روزمرہ کی زندگی اور تعلقات پہ اثر کرنے لگتا ہے۔ ہم یا تو مکمل طور پہ اپنی زندگی کو حالات کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیتے ہیں۔ یا پھر ہم اس احساس کو ختم کرنے کے لیے دوسروں کی زندگی میں دخل اندازہ شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دوسروں کو اپنی مرضی سے چلانے کے باوجود اگر آپ کا احساسِ بے بسی آپ کے نفسیاتی مسائل کا شاخسانہ ہے تو کئی لوگوں پہ اختیار رکھتے ہوئے بھی آپ خود کو بہت کمزور اور بے اختیار شخص محسوس کریں گے۔ اپنے مرضی کے خلاف ہوئے چھوٹے چھوٹے کاموں پہ بھی ہم شدید ذہنی اذیت کا شکار ہو جائیں گے اور دوسروں پہ مزید سخت رویہ مسلط کرنا شروع کردیں گے۔ والدین اساتذہ اور باس کا، اولاد، شاگرد یا ماتحت کی غلطی پہ انہیں صفائی کا موقع نہ دینا اور ان کے جواب کو نافرمانی سمجھنا اسی احساس بے بسی کا ردعمل ہے۔ جب تک ہم اپنی ذات پہ اختیار بڑھانے پہ کام نہیں کریں گے تب تک ہم یا تو دوسروں کو اپنی ذات پہ اختیار دیتے رہیں گے یا زبردستی دوسروں کی ذات پہ خود حاکم بننے کی کوشش کریں گے۔ جب ہم ایک دفعہ جان جاتے ہیں کہ ہمارا احساسِ بے بسی ہماری اندرونی وجوہات کاشاخسانہ ہے تو ہم ناصرف ان وجوہات پہ کام کرنا شروع کرتے ہیں بلکہ یہ مشاہدہ کرنا شروع کرتے ہیں کہ ہمارا اختیار ہماری زندگی کے کن کن عوامل پہ اب بھی ہے۔ پھر ہم یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ ہمارا اختیار جن عوامل پہ نہیں ہے ان پہ ہونا چاہیے یا نہ ہونا بھی ٹھیک ہے یا جزوی اختیار ہے۔ مثال کے طور پہ میرے لیے میرے لباس کے انتخاب پہ کون سے عوامل اثر کر رہے ہیں؟ مجھے خود کیسا لباس پسند ہے؟ میرے گھر والوں کی طرف سے مجھے وہ لباس منتخب کرنے کی اجازت ہے؟ میرے معاشرے میں وہ لباس قابل قبول ہے؟ میں کس موسم میں وہ لباس پہننا چاہتی ہوں کیا وہ مجھے موسم کی شدت سے بچائے گا؟ یہاں آپ مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ کچھ جگہ میرا اختیار جزوی ہے۔ یعنی اگر میں سردی میں کسی تقریب کے لیے سلک کی ساڑھی پہننا چاہوں اور کسی گرم کمرے میں رہوں تو میں باآسانی پہن سکوں گی۔ لیکن اگر مجھے گھر والوں کی طرف سے ساڑھی پہننے کی اجازت نہیں ہے تو مناسب موسم میں بھی نہیں پہن سکوں گی۔ موسم کی شدت اور گھر کی طرف سے اجازت نہ ہونا دونوں طرح کی بےبسی الگ احساس دے گی۔ یہاں اگر میں اپنا جزوی اختیار استعمال کرنا چاہوں تو میں یہ دیکھ سکتی ہوں کہ کس قسم کی ساڑھی گھر والوں کے لیے قابلِ قبول ہوسکتی ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔ ہم روز اپنے لیے کئی فیصلے کر رہے ہوتے ہیں مگر اس کا ادراک نہیں کرپاتے۔ اور چند بڑے بڑے فیصلوں میں دوسروں کا اثر

Scroll to Top