Author name: admin

Naaye Khwaab

Uncategorized

خوشگل از ثمین صداقت

خوشگل از ثمین صداقت ہم لڑکیوں کو شیشے سے پار کیوں نہیں دیکھنے دیتے؟ چاہے لوگ متفق نہ ہوں لیکن دنیا عورت کوخوبصورتی کے پیمانے سے ناپتی ہے۔ اس دنیا میں لاتعداد کلچر ہیں ہر کسی کی خوبصورتی کی تعریف چاہے مختللف ہو لیکن عورت کے لیے پیمانہ ایک ہی مختص ہے۔ پیدائش سے لے کر جوانی کے دہلیز پر قدم رکھنے سے لے کر دائمی سفر پر جانے تک ایک لفظ عورت کثرت سے سنتی ہے اور وہ ہے : خوبصورت، بدصورت!اگر آپ اس بات سے متفق نہیں تو سوچ کر بتائیں کہ اگر کسی عورت کی تعریف کرنی ہو تو آپ کیسے کرتے ہیں؟ ’آج آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں، واؤ پریٹی، حسین، خوبصورت، یار آج کیا لگ رہی ہو، گورجیس‘ اس جیسی لاتعداد تعریفیں جو صرف ظاہری شخصیت کے متعلق ہوتی ہیں۔ کسی انسان نے عورت کو برا محسوس کروانا ہو تو وہ بےاختیار اس کی ظاہری شکل و صورت کے متعلق طنز کرتے ہیں، ’او ہو موٹی ہو گئی ہو، ویٹ گین کیا ہے، رنگ کو کیا ہو گیا ہے، ہاتھ، پاؤں چہرہ سب کے رنگ مختلف ہیں، کالی بیٹی پیدا ہو گئی، دانے کتنے نکل گئے ہیں چہرے پر، ڈبل چن۔۔‘ایک لمبی فہرست جنہیں سن کر عورت کے چہرے کا رنگ سیکنڈ میں تبدیل ہوتا ہے اور اپنے آپ سے ناپسندیدگی کا جغرافیہ بلند سے بلند تر ہوتا جاتا ہے۔ اگر مرد کی تعریف کرنی ہو تو ہماری زبان سے بغیر کسی اعتراض کے ’ہینڈسم‘ نکلتا ہے۔ اکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق اسکے معنی ہے ’سوٹ ایبل، کلیور معنی چالاک‘ اس کے برعکس عورت کے لیے خوبصورت کا لفظ زبان زد عام ہے جسکا مطلب حسن و جمال، یا دماغ کو خوش کرنا ہے۔ مسائل ان الفاظ سے شروع ہوتے ہیں۔ عورت زندگی میں جتنی مرضی کامیاب ہے، جس بھی عہدے پر ہے، بہترین طریقے سے رشتے نبھا رہی ہو، اپنے کام میں بہت ماہر ہے لیکن اگر اس کا وزن زیادہ ہے، رنگ پکا ہے، بال سفید ہیں اور سب سے ضروری بات وہ میک اپ کے بغیر ہے تو اس پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو آپ سوچیں اور خود اردگرد دیکھیں اگر کوئی عورت اوپر بیان کیے حلیے میں کوئی کام کرتی پائی جائے توآپ نے ایسی آوازیں نہیں سنی کہ ’انہیں تو سینس ہی نہیں، یہ ایسے ہی اٹھ کر آ گئیں، اسے اس عہدے پر بٹھایا کس نے ہے؟ لگتا ہی نہیں یہ اس پوزیشن پر کام کرتی ہے۔‘انہیں سب باتوں سے آج کی لڑکی اپنے دن کا آدھے سے زیادہ حصہ ’میں کیسی لگ رہی ہوں‘ کی سوچوں میں گزراتی ہے، چہرے پر نکلا ایک دانہ گھنٹہ کب کھا جاتا ہے معلوم ہی نہیں ہوتا۔ وزن بڑھ جائے تو اپنی نظروں میں وقعت گر جاتی ہے، سوچنے لگتی ہیں کہ ہم اب کسی لائق ہی نہیں، خوشیوں اور کامیابیوں کو ظاہری شخصیت کے ساتھ جوڑنے کا کام بہت اعلیٰ طریقے سے صرف سوشل میڈیا نے نہیں کیا۔ اس میں والدین، فیملی، دوست احباب سب شامل ہیں۔ کبھی کسی نے سوچنے کی زحمت ہی نہیں کی کہ خوبصورتی کی دوڑ ہماری لڑکیوں کو کس طرح ایک کمرے میں بند کر رہی ہے جہاں ان کی سوچ، میں خوبصورت ہوں یا نہیں، پتلی ہوں یا موٹی، کالی، گوری، چہرے ہر نکلے دانے سے سر پٹخ پٹخ کر واپس دماغ تک پہنچ جاتی ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ایسی کیا بات ہے کہ اگر ایک عورت خوبصورت دکھنا چاہتی ہے؟ کوئی برائی نہیں۔ برائی اس میں ہے کہ ہم لڑکیوں کو ’صرف اور صرف‘ خوبصورت دیکھنا چاہیں۔ ایک خاص’ فگر‘ میں دیکھنا چاہیں۔اگر وہ پتلی یا کلیئر سکن کیساتھ نہیں ہیں تو انہیں جینے کا حق بھی نہیں۔ ہمارا پیسہ، سوچ، خیالات، اور سب سے قیمتی وقت اس خوبصورتی کی دوڑ میں ختم ہو جائے۔ میرا یہ سوال ہے کہ کیا خوبصورتی اس قدر اہم چیز ہے جس پر وقت صرف کیا جائے؟ ریسرچ کے مطابق لڑکیاں صبح کے وقت تیار ہونے میں کم سے کم پندرہ سے بیس منٹ لگاتی ہیں۔ اپنی زندگی کے دو سال وہ صرف میک اپ کرنے میں صرف کرتی ہیں۔وہ خوبصورت لگ رہی ہیں یا نہیں یہ اس بات کا تعین کرتا ہے کہ انکا دن کیسا گزرے گا۔ ریسرچ کے مطابق اگر آپ کا دیہان اپنی ظاہری شخصیت کے اوپر ہے کہ آپ کے کپڑے درست ہیں یا نہیں، بال ٹھیک ہیں یا نہیں، میک اپ، لپ اسٹک، یا جنرل طور پر آپ کیسی لگ رہی ہیں۔۔یہ چیزیں آپ کی پرفارمنس پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ آپ صحیح فیصلے نہیں کر پاتے، آپ پراعتماد نہیں رہتے، آپ کی سیلف ایسٹیم تباہ و برباد ہو جاتی ہے۔ ’میسلو کی ہیرارکی آف نیڈ‘ کے مطابق اگر آپ کی سیلف ایسٹیم کم ہے تو آپ کبھی بھی اپنے فل پوٹینشیل (حقیقی صلاحیت) کو پہچان نہیں سکتے۔ اسی لیے مختلف ریسرچ کے مطابق لڑکیوں کی پولیٹیکل اینگیجمنٹ صفر کے برابر ہے۔ پاکستان میں صرف ۶ پرسنٹ خواتین بڑے عہدوں پر فائض ہیں۔ مان لیتے ہیں کہ مزید دوسرے عناصر ہوں گے لیکن ان سب عناصر میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم نے لڑکیوں کو خوبصورتی سے آگے بڑھنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ اگر وہ خوبصورت ہیں تو زندگی میں اسے برقرار کرنے کی جدوجہد کرو اور اگر وہ نہیں ہیں تو خوبصورت بننے کی قطار میں لگ جاؤ اور اس میں زندگی کے بہت سے سال، انرجی، پیسہ صرف کر دو۔ کہا جاتا ہے کہ خوبصورتی پر بات کرنے سے زیادہ ضروری اور بہت سے اہم مسائل ہیں۔ میں بھی یہی کہتی ہوں لیکن اگر ہماری لڑکیاں اپنے پوٹینشیل کو نہیں پہچانیں گی تو دنیا کے اہم مسائل پر غور وفکر کیسے کریں گی؟ جب ہم نے اپنی لڑکیوں کی سوچ و خیالات کو ’وہ کیسی دکھتی ہیں‘ تک محدود کر دیا ہے تو وہ کیسے دنیا فتح کریں گی؟ اگر وہ ویٹ مشین سے آگے قدم نہیں بڑھائیں گی تو دنیا کا سفر کیسے طے کریں گی؟ اگر وہ اپنے دن کا بہت سا حصہ کیلوریز کاؤنٹ کرتے، کیا کھانا ہے کیا نہیں کھانا، میک اپ اور کپڑے سیٹ کرتے گزار دیں گی تو آگے کیسے بڑھیں

Uncategorized

Echoes from the Mountains – Book Review

Echoes from the Mountains – Book Review There are books that take one to imaginary lands and weave tales of such adventures that one fails to draw a line between reality and dreams. But there are also books that carry the echoes of lost souls, wisdom, and love. Echoes from the Mountains by Khalida Naseem is one such book. This book is like a hidden map to a lost world of humanity, civilization, love, empathy, and standing tall and upright for one’s beliefs, even in the face of the most brutal regimes. It is a concealed treasure of wisdom, but for me, it is also a way to repay the debt of love I owe towards the warm and welcoming land of the Pakhtuns, the homeland of many of my father’s and uncle’s dear friends. From them I learned the mighty history of peaceful rebellion and the melodious Pashtun poetry that they patiently translated for me. One can easily imagine the pain I felt when I saw this mighty land descending into a war zone, no longer a destination for summer vacations to meet our family friends. Ghani Khan, son of the mighty Bacha Khan, a poet, free thinker, and rebel against religious feudals, was a man of ideology and principles whose heart and mind were in sync with the poor people of his land. His name was not new to me, as men of ideology remembered him with respect and fondness all over Indo, Pak, and Afghan lands. To read his poetry in English, through the lens of a woman who herself strongly identifies with her roots and feels the agony and pain of her motherland, is a great testament. Both the poet and the translator suffered through the anguish of extremism that began engulfing the Pakhtuns from the 1980s onwards, and this is evident in the poems Khalida selected for translation. O lover of IslamO political mominToday you praise IslamWhat was the praise yesterday?Today are promises of paradiseWere yesterday’s promises of hell? Poetry is not merely sewing rhyming words into beautiful strings of verses. Poetry that resonates with the emotions of common people, expresses their struggles, and voices their social issues can stand the test of time and history. Ghani Khan’s poetry does just that, as his soul was as simple as that of the common Pakhtun, and in his heart and mind, he was clear about his ideology and love for his people. And when I say his people, I do not mean the Pashtun elite living in lush green bungalows of Islamabad, but the common men who always stood with his father and family, following the path of non-violence, even though they were the ones against whom the most brutal violence was unleashed, from the British Raj to the regimes after independence. Their children are still being used as sacrificial lambs in the so-called Jihad. Ghani Khan felt the pain of this imported jihad and was fully aware of the monsters it was creating. He was vocal about it. When I read his poem You Name it Jihad, I was astonished by its blunt truth. I thought of Mishal Khan, who lost his life to religious fundamentalists, and I thanked fate that Ghani Khan was not alive in today’s times, otherwise, he might have met the same fate. Questioning is forbidden, religion is used as a tool to suppress the masses, and turning people into blind followers is a gift for elites. Ghani Khan questioned every part of this blind submission and openly challenged the religious lords. It gives me shivers to imagine what would have happened to him in today’s madness. Khalida is equally aware of this monster, as she herself saw her beautiful motherland turning into hell, where instead of education and infrastructure development, billions of dollars were spent turning poor children into so-called Mujahideen and suicide bombers. The poem And You Name it Jihad reflects not only the poet’s intellect and political insight but also Khalida’s own. By selecting this poem, she conveys the brutality her nation has endured on a global platform. Dollars in pocket,Poison in hands,He tells me to kill a Pashtun brotherAnd calls it Jihad. The beauty of this book lies in Khalida’s unwavering commitment to Ghani Khan’s poetry. She is not afraid to select poems manifesting his wit and his scathing critique of religious feudal lords, such as O Mullah, Your Heart is Full of Self, O Mullah, You and I, and my personal favorites Islam, O Political Momin and the star of the book, You Name it Jihad. The Mullah he repeatedly addressed was not the poor imam of a village mosque, but the powerful religious feudals. Ghani Khan was fully aware of the class system within clerical ranks and their audacity to sell their own blood and flesh to foreign powers for dollars. That man with the white turban,And a long beard to show off,Like a hidden poisonous snake…Crushing that cursed hypocriteIs real Jihad. Through Khalida’s command of language and poetry, this poem alone tells the story of fifty years of senseless, imported war. Ghani Khan’s poems encompass diverse emotions and themes: love, grief, passion, longing, humanism, philosophy, mysticism, cultural pessimism, escapism, imagination. For this reason, he is often compared to John Keats. But to me, his aura surpasses Keats, because of his bravery in openly challenging religious fundamentalists, who were (and still are) considered holy and above the law. To select a poet of such magnificence is no easy task. It requires not only a deep understanding of the poet’s thought process, but also proficiency in language and the courage of heart to deal with subjects many avoid for the sake of safety. Khalida displays all of these qualities in her book. I hope Echoes from the Mountains will shatter the echo chambers that have portrayed Pashtuns as mindless, brutal savages, and instead reveal their true history of non-violence, love, patriotism, bravery, and civilization that we lost to greed. O lovers,A few momentsIn the bloom

Build Self-Confidence Mah e Darakhshan
Mah e Darakhshan

How to Build Self-Confidence: 7 Practical Tips for Women in Daily Life

How to Build Self-Confidence: 7 Practical Tips for Women in Daily Life Picture standing in front of a full-length mirror before an important presentation. Your hands tremble. Your heart beats quickly. And that quiet voice in your mind whispers: “What if I fail?” We’ve all been there. But here’s the truth: confidence isn’t something you’re born with; it’s something you build. Today, I’m sharing seven practical tips for building was self-confidence, especially for women in Pakistan, where cultural expectations can be challenging. Let’s begin. “Whenever a woman defends herself, she defends all women.” Maya Angelou Confidence isn’t something we’re born with; it’s something we grow through actions and choices. If you’ve ever felt your voice wasn’t heard or stayed quiet when you wanted to speak up, you’re not alone. Many women—whether in Karachi, Lahore, Peshawar, or a small town in Sindh, struggle with self-doubt. The good news is, self-confidence is a skill you can develop. And when you do, your life begins to change. You start to ask for what you deserve, whether it’s respect at work, fairness at home, or space for your personal dreams. Let’s explore seven real, practical tips that can help you build self-confidence in your everyday life. These are not just ideas, they are steps you can take, based on the challenges we face as women in Pakistan. 1. Start by Owning Your Story Every woman has her own story. Some of us grew up in homes where girls were told to be quiet. Some faced rejection in school or discouragement when pursuing a career. I remember a friend from Multan who was mocked for choosing mechanical engineering, “That’s not what girls do,” people said. Today she designs machines at a top firm in Lahore. The first step to building self-confidence is to own your journey, both the struggles and the successes. Don’t see your hardships as weakness; instead, see them as proof of your strength. How many times have you heard a woman say, “Oh, it’s nothing, anyone could have done it,” after achieving something great? We’re often taught to downplay our accomplishments. But here’s the key: own your successes. Write them down. Keep a “pride journal” where you list even small wins, like finishing a tough project or handling a family crisis with grace. The next time someone praises you, don’t brush it off, just say: “Thank you, I worked hard for it.” Owning your success isn’t arrogance, it’s recognition.  Practical tip: Write down three tough challenges you’ve overcome and how you did it. When doubt creeps in, revisit this list as a reminder that you’ve survived before, and you will again. 2. Embrace the Power of Small Wins We often think confidence comes from big achievements, like promotions or public recognition. But true confidence grows through small, consistent successes. For instance, maybe you spoke up in a meeting at your workplace in Islamabad. Or you finally went to driving school in Karachi, even though people said, “Women aren’t good at driving.” Confidence doesn’t come overnight, it builds through action. Start with small goals and celebrate each little achievement. Imagine you want to speak more at work. Instead of trying to lead a meeting right away, begin by sharing one idea during a team discussion. Repeat this a few times, and you’ll notice your confidence growing, just like a muscle. In Lahore, I once met a university student who feared public speaking. She started by reading short passages in class, then moved on to giving brief speeches, and eventually became president of her debate club. What was her secret? She started small and grew gradually. Useful suggestion: Keep a “confidence diary.” Each night, write down one action you took that made you proud, no matter how small. Over time, these small achievements will create a solid foundation for confidence. 3. Reframe Your Inner Dialogue Have you ever thought, “I’m not enough” or “What if I fail?” For many women, this critical inner voice is louder, especially in cultures that value humility and obedience. But confidence starts within. As Eleanor Roosevelt said: “Nobody can make you feel less than yourself unless you allow it.” To build self-confidence, you must change the way you talk to yourself. Instead of saying, “I can’t do this,” say, “I will find a way.” Replace “I always fail” with “This is a chance to improve.” Useful suggestion: Every morning, stand in front of a mirror and say a motivational phrase in Urdu or English, such as: “Main apne naseeb ki zaroorat rakhti hoon.” “I deserve respect and success.” Remember: “Whether you believe you can, or you believe you can’t—you’re right.” – Henry Ford 4. Surround Yourself with Encouraging People Confidence is contagious. Being around people who bring you down can hurt your self-esteem. But surrounding yourself with friends, mentors, or even online groups that support you can make a huge difference. In Pakistan, groups like WomenX and Circle Women Association, along with casual WhatsApp groups for women, create safe spaces for women to inspire and support each other. Consider inspiring figures such as Fatima Jinnah, who stood firmly by Quaid-e-Azam, or Malala Yousafzai, who continues to speak up despite the dangers. Behind each of them were people who encouraged and supported them. Useful advice: Connect with local women’s organizations, such as the Women Chamber of Commerce, or virtual groups like WomenInTech PK. Having mentors and supporters can greatly boost your confidence. 5. Focus on Your Development Self-confidence often comes from having skills. The more you know, the more confident you become. If you’re hesitant to share your thoughts at work in Faisalabad, it might be because you feel you don’t know enough about the topic. The solution? Learn more. Taking an online class, reading a leadership book in Urdu, or watching a YouTube tutorial can all help increase your knowledge and make you feel more prepared. Nothing boosts confidence quite like competence. The more skilled you become, the more assured you are in any situation. These days, with

Dr. Khushal das Parmar, Blog

Why Deep Reading Still Matters in the Age of AI?

In a world where AI tools like ChatGPT, Gemini, Deep Seek can summarize a 600-page novel in seconds, we may find ourselves wondering: why bother reading deeply anymore? Let’s understand Deep reading first. It is the slow, immersive, thoughtful engagement with text, it is not just about absorbing content. It’s about shaping our minds. It’s what teaches us to pause, to think critically, to empathize, and to make meaning from complexity. Unlike casual reading, where we skim headlines or scroll through quick content, deep reading requires focus, patience, and emotional engagement. It means staying with a complex idea, absorbing the nuances of a sentence, and reflecting on the inner conflict of writers or their subtle arguments. As artificial intelligence reshapes how we consume knowledge, it tempts us with speed and convenience but it may quietly erase the very capacities that make us human. Through this blog I will make you understand that why deep reading still matters; perhaps now more than ever. Neurologically, deep reading activates multiple regions of the brain: those responsible for language, memory, empathy, and sensory experience. The cognitive neuroscientist Maryanne Wolf in her talk (available on YouTube at The University of Chicago Graham School YouTube channel) says, “deep reading builds a quality of attention that enables us to analyse, infer, and reflect which is the essential components of critical thinking.” In the act of reading we build emotional intelligence, broaden our perspective, and practice empathy. Research in psychology and education has shown that people who read literary fiction regularly score higher in tests of social cognition and empathy. Why? Because deep reading puts us into someone else’s shoes and keeps us there. In contrast to the quick dopamine hits of digital consumption (The quick dopamine hits and the increasing use of social media is another troubling issue, I suggest you to explore it on your own), deep reading cultivates sustained attention and cognitive endurance. The American entrepreneur and author Jim Rohn says, “Reading is essential for those who seek to rise above the ordinary.” Jim Rohn’s quote reminds us that deep reading doesn’t just make us informed but it helps elevate our thinking beyond average, beyond superficial. It sharpens our ability to question, reflect, and grow. Psychologically, deep reading fosters not only intellectual maturity but also emotional resilience. When we engage deeply with complex characters, conflicting viewpoints, or unresolved endings, our minds learn to hold ambiguity, develop patience, and regulate emotions. The Psychologist Raymond Mar says, “Engaging with stories helps us understand other people and our social world.” Deep reading allows us to simulate emotional experiences, understand diverse perspectives, and process the complexities of human relationships. We confront dilemmas, grieve with characters, and rejoice in their growth. Over time, this strengthens our empathy and self-awareness. In the words of Carl Jung, “Who looks outside, dreams; who looks inside, awakes.” Deep reading becomes a mirror to our inner selves, helping us identify feelings and beliefs that we may not have consciously acknowledged. Unlike quick content, which often numbs us with overstimulation, deep reading offers a kind of therapeutic introspection i.e a mental space where transformation quietly takes root. We live in an age of shortcuts, our generation wants everything as fast as possible and expects instant results. Large Language Models (LLMs) like ChatGPT, Gemini, or DeepSeek can now process and summarize entire books, articles, or academic papers within seconds. Need a quick overview of Dostoevsky’s The Brothers Karamazov? AI’s got you. Want a synopsis of a research paper for tomorrow’s meeting? Done in one prompt. But with this growing dependence on machine-generated summaries comes a subtle shift: we’re learning to favour speed over depth, answers over questions, and efficiency over experience. This culture of speed has deeply affected students, researchers, and professionals. Many now skip entire readings in favour of AI-generated abstracts or YouTube explainers. While this might help meet deadlines, it also risks flattening our intellectual engagement. The nuances, contradictions, and discomforts that make reading meaningful are often left behind. In this race toward faster knowledge, we risk creating a generation of thinkers who know what something means but not why it matters. No matter how advanced machines become, they cannot replicate the inner transformation that deep reading brings. It can generate meaning, but it cannot derive meaning from lived experience. Reading deeply allows us to wrestle with ambiguity, sit with discomfort, and engage with ideas that challenge us. By deep reading we, develop empathetic imagination by inhabiting perspectives unlike our own. hone complex reasoning by following intricate narratives or arguments. cultivate a sense of self, one shaped not just by information, but by interpretation. George Saunders once said, “Fiction is a kind of empathy machine.” It makes us more human, something no algorithm, however brilliant, can simulate. AI may be able to mimic thought, but it cannot feel heartbreak in a poem, or wrestle with moral dilemmas in a novel, or grow wiser after reading a memoir. That’s the irreplaceable gift of deep reading. I am not saying to stop using AI tools, but suggest you to use it wisely. AI can be a powerful companion in our reading journey. It can suggest books based on interests, or provide background context for complex topics. But it should serve as a starting point, not the endpoint. Rather than replacing deep reading, we can use AI tools to enhance it: Use ChatGPT or any other LLMs’ tool to generate discussion questions after reading a novel.Ask AI to compare philosophical arguments across authors after you’ve read them.Use tools like Goodreads or AI-powered recommendation engines to find your next deep read. In the fast-moving age of algorithms and instant answers, the quiet discipline of deep reading is more essential than ever. It anchors us. It nourishes our inner world. It slows us down and in doing so, makes us more thoughtful, empathetic, and fully human. The famous quote by George R.R. Martin, “A reader lives a thousand lives before he dies. The man who never reads lives only

Blog, Meher Ali

نئے خواب، نیا نصاب”: مختصر تعارف و تبصرہ”

نئے خواب، نیا نصاب”: مختصر تعارف و تبصرہ” مقدس مجید صاحبہ سے میری پہلی ملاقات پاک ٹی ہاؤس میں ہوئی۔ ہم دونوں Urban World USA کے زیرِ اہتمام ہونے والے ایک پروگرام Pakistan Youth Poet Laureate کا حصہ تھے، اس لیے شاعری ہی ہمارے درمیان پہلا تعارف بنی۔ پہلی ملاقات میں ان سے ادب اور ادب کے علاوہ بہت سے موضوعات پر گفتگو کا موقع ملا، اور اس حوالے سے ان کے خیالات سن کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ میں عام طور پر لوگوں سے متاثر نہیں ہوتا، بلکہ مجھے یاد نہیں کہ میں کب کسی سے متاثر ہوا تھا۔ البتہ یہ بات میں مقدس مجید کے بارے میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ میں ان کی شخصیت اور ان کے خیالات سے بے حد متاثر ہوا۔ اسی ملاقات میں انہوں نے اپنی پہلی کتاب “نئے خواب، نیا نصاب” بھی پڑھنے کے لیے عنایت کی۔ یہ کتاب دراصل مقدس مجید اور معروف نفسیات دان ڈاکٹر خالد سہیل کے درمیان خطوط کا تبادلہ ہے، جس میں کل 29 خط شامل ہیں۔ معاشرے کا شاید ہی کوئی ایسا مسئلہ ہو جو ان خطوط کا موضوع نہ بنا ہو۔ سوال اٹھانے کی اہمیت سے لے کر عورتوں کے مسائل اور دیگر ایسے موضوعات، جنہیں آج بھی ہمارے معاشرے میں taboo سمجھا جاتا ہے، ان خطوط کا حصہ ہیں۔ یہ کتاب دراصل نوجوان نسل کے مسائل پر ایک مکالمہ ہے، جن میں معاشرتی اور نفسیاتی ہر طرح کے مسائل شامل ہیں۔ یہ کتاب ایک فرد پر معاشرے کی لگائی گئی پابندیوں کا تذکرہ کرتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرہ کبھی بھی ایک فرد کو وہ نہیں بننے دیتا جو وہ بننا چاہتا ہے۔ نطشے نے کہا تھا: Society tames the wolf into a dog, and man is the most domesticated animal. ہمارے معاشرے میں آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے کہ بچپن ہی سے اس کے سوالات پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے، اور اس کا آغاز گھر سے ہوتا ہے، اور شاید سب سے زیادہ اسکول، کالج اور مدارس سے، جہاں کچھ بھی نیا سوچنے یا پوچھنے پر ستائش کے بجائے سزا ملتی ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ تمام زندگی انہیں خیالات اور نظریات کے سہارے گزار دیتے ہیں جو ہمیں معاشرے اور خاندان سے ملتے ہیں۔ ہم کبھی ان پر سوچنے کی کوشش نہیں کرتے، نہ ہی ان پر سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ یا کیا یہ نظریات اور خیالات درست بھی ہیں یا نسل در نسل بغیر کسی شواہد کے منتقل ہو رہے ہیں؟ اس کتاب میں نوجوان نسل کی نمائندگی کرتے ہوئے مقدس مجید نے ایک بہت اہم سوال اٹھایا ہے کہ آخر کامیابی کیا ہے؟ یہ سوال اکثر میں بھی سوچتا ہوں، اور یقیناً یہ سوال ہم میں سے اکثر لوگ اپنے آپ سے پوچھتے ہوں گے۔ ڈاکٹر خالد سہیل اس حوالے سے بہت ہی عمدہ جواب دیتے ہیں کہ کامیابی مختلف لوگوں کے لیے مختلف تصور رکھتی ہے۔ کامیابی کی ایک تعریف وہ ہے جو معاشرہ ہمیں دیتا ہے، یعنی پیسے کمانا، دنیاوی آسائشوں کے لیے جدوجہد کرنا، شادی کرنا، بچے پیدا کرنا وغیرہ۔ جبکہ اس کے برعکس کامیابی کا ایک تصور غیر روایتی اور تخلیقی ہے، جس میں ایک فرد اس کامیابی کی اُس تعریف کو، جو اسے معاشرے کی طرف سے ملی ہے، رد کر دیتا ہے۔ ایسے لوگوں کے ہاں کامیابی سچ کی تلاش اور اپنے اور دیگر انسانوں کی فلاح و بہبود ہوتی ہے — یعنی ادیب، سائنس دان، فلسفی وغیرہ۔ یہ بات بھی ایک معمہ ہے کہ معاشرے سے ملنے والے تصور پر عمل پیرا ہونے والے افراد صرف اپنی ذات کے غم میں مبتلا ہوتے ہیں، جبکہ جو معاشرے سے ہٹ کر اپنی کامیابی کا تصور خود تراشتے ہیں، وہ اپنی ذات کے بند کمرے سے نکل کر پورے معاشرے کے لیے سوچتے ہیں۔ اس کتاب میں ان مسائل پر بھی گفتگو کی گئی ہے جو پدرسری معاشرے میں عورت کو پیش آتے ہیں۔ اس کے علاوہ شادی، بچوں کی ذمہ داری، نفسیاتی مسائل وغیرہ پر بھی بہت تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے، جس کو پڑھ کر ہمارے ذہنوں میں نئے نئے سوالات جنم لیتے ہیں۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ کسی بھی کتاب کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ اپنے قاری کو کس حد تک سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ جو کتاب آپ کے ان نظریات پر، جو کلیشے کی صورت اختیار کر چکے ہوں، سوال نہیں اٹھا سکتی یا آپ کو سوچنے کے لیے آمادہ نہیں کر سکتی، وہ کتاب کامیاب نہیں کہلا سکتی۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو یہ کتاب نہایت کامیاب ہے۔ ایسا معاشرہ، جہاں لوگ سوال نہیں اٹھاتے، یا جس میں لوگوں کی آنکھیں روایت سے ہٹ کر خواب نہیں دیکھتیں، وہ معاشرہ مشینوں کا معاشرہ ہے۔ لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ آج بھی ایسے معاشرے میں مقدس مجید جیسی شخصیات موجود ہیں جو اس حوالے سے ہم نوجوان نسل کی نمائندگی کر رہی ہیں اور تاریک شب میں چراغ کے مانند ہیں۔ اختتام پر پیرزادہ قاسم صاحب کا ایک شعر: میں ایسے فرد کو زندوں میں کیا شمار کروں جو سوچتا بھی نہیں، خواب دیکھتا بھی نہیں (مہرعلی) Leave a Reply Cancel Reply Logged in as admin. Edit your profile. Log out? Required fields are marked * Message*

Blog, Shabana Aslam

ایک سفر، درد سے سکون کی جانب

ایک سفر، درد سے سکون کی جانب مجھے ہمیشہ سے صوفی یا درویش کو جاننے کا تجسس رہتا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے میں نے بہت سی کیٹیگری کے لوگوں کے قریب ہو کر دیکھا، لیکن مجھے مایوسی ہی ہوئی۔ ان کے درویش ہونے یا بننے کے پیچھے ذاتی مفاد اور اچھا کہلوانے سے زیادہ کچھ نہ ہوتا۔ اسی تلاش میں میرا رابطہ سوشل میڈیا کے ذریعے مقدس مجید صاحبہ سے ہوا تو لگا جیسے تلاش ختم ہوئی۔ مقدس مجید صاحبہ کے ذریعے ڈاکٹر خالد سہیل صاحب سے بھی سیشنز ہوئے اور گرین زون فلاسفی کو جاننے کا موقع ملا۔ مقدس مجید صاحبہ پاکستان میں اور ڈاکٹر خالد سہیل صاحب کینیڈا میں گرین زون فلاسفی پر کام کر رہے ہیں۔ میری نظر میں یہ دونوں ہستیاں صوفی ہیں اور ان کی فلاسفی ایک مرہم ہے، جو کہ سیلف ہیلپ پروگرام ہونے کی وجہ سے چند دن آپ کو تکلیف سے نجات نہیں دے گی، بلکہ زندگی بھر کے لیے آپ کو سیلف کیئر کرنا سکھاتی ہے۔ شدید سردیوں کے دن تھے اور ایک صبح آفس کے لیے گھر سے نکلی تو گھر کے ارد گرد سب کچھ واضح تھا۔ جیسے ہی گاڑی آفس روٹ پر ڈالی تو سموگ کی وجہ سے ہر منظر غائب ہو گیا تھا۔ بہت مشکل سے روڈ پر گاڑی رکھتے ہوئے آہستہ آہستہ منزل کی طرف روانہ ہوئے۔ جو راستہ روزانہ 12 سے 15 منٹ میں طے ہو جاتا تھا، آج ایک گھنٹہ گزر جانے کے بعد بھی ختم نہیں ہو رہا تھا۔ میں بہت زیادہ خوف، گھبراہٹ اور ٹینشن میں تھی۔ بہت سارے خدشات دماغ میں ہلچل مچا رہے تھے۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ تکلیف میں سفر کرنے کے بعد آفس میں جا کر بیٹھی تو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔ سموگ نے نہ صرف ہر منظر دھندلا کر دیا، بلکہ میرے جذبات کو بھی منتشر کر دیا اور میری صلاحیتیں بھی دب گئیں۔ واپسی میں دھوپ نکلی تو سب کچھ وہی تھا: سفر، روڈ، گاڑی، ساتھی اور ارد گرد کے مناظر۔ لیکن سب کچھ واضح ہونے کی وجہ سے میں پرسکون تھی۔ اب اسی واقعہ سے گرین زون فلاسفی کو سمجھنا آسان ہوا۔ انہی دنوں مقدس مجید صاحبہ نے پاکستان میں گرین زون لیونگ ٹریننگ پروگرام کا آغاز کیا، جس میں خوش قسمتی سے میری بھی سلیکشن ہو گئی۔ ہمارا کوٹ پہلا تھا۔ پورے پاکستان سے نوجوان شامل تھے۔ یہ آٹھ ہفتوں کا ٹریننگ پروگرام تھا، جس نے زندگی بھر کا لائف اسٹائل ہی تبدیل کر دیا۔ جس دن میں پہلا سیشن اٹینڈ کرنے بیٹھی تو میری ذہنی حالت ایسی تھی جیسے سموگ کی وجہ سے گاڑی کا چلنا مشکل تھا۔ جذبات کی دھند نے میری زندگی کی گاڑی نہ صرف سست کر رکھی تھی، بلکہ سانس تک لینا دشوار تھا۔ مقدس مجید صاحبہ نے پہلے ہی سیشن میں اتنے اچھے انداز سے جذبات کو آئڈینٹیفائی کرنا سکھایا کہ سموگ چھٹنے لگی۔ پھر آٹھ ہفتوں کے سیشنز نے دل اور دماغ میں چبھے ہوئے ایک ایک تکلیف دہ کانٹے کو نہ صرف نکال باہر پھینکا بلکہ گرین زون اسٹریٹجیز سے ان پر مرہم بھی رکھا۔ اس فلاسفی کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہ سیلف ہیلپ پروگرام ہے، جس میں آپ کسی پر عمر بھر ڈیپینڈ کرنے کی بجائے خود کا خیال رکھنا اور جذبات کو پہچان کر کنٹرول کرنا سیکھتے ہیں کہ کس طرح خود کو ریڈ زون میں جانے سے بچانا ہے اور گرین زون میں رہنا ہے۔ اس فلاسفی کا سب سے خوبصورت پہلو اپنی ہیلدی باؤنڈریز سیٹ کرنا ہے۔ ایسا کرنے سے میرے اندر سے بیرونی حل کم ہوا۔ اسی طرح گرین زون آور اور “می ٹائم” نے میرے اندرونی حل کو کنٹرول کرنے میں مدد کی اور مجھے خود کو جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ زندگی میں پہلی دفعہ خود سے محبت ہونے لگی۔ سب مناظر واضح ہونے لگے۔ جو زندگی گزارنا مشکل ہو رہا تھا، اب وہی زندگی خوبصورت لگنے لگی۔ یہ فلاسفی ایک مینٹل ہیلتھ پروگرام ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ہیلدی لائف اسٹائل بھی ہے، جس میں ڈاکٹر خالد سہیل صاحب اور مقدس مجید صاحبہ بڑے خوبصورت انداز میں سکھاتے ہیں کہ self caring نہیں، self carrying کرنی ہے۔ میں ایک بے چین سی لڑکی تھی، ذرا ذرا سی بات پر پریشان ہو جانے والی اور ڈپریشن کا شکار۔ مایوسی کا یہ عالم تھا کہ خودکشی کرنے کو دل کرتا تھا۔ اس پروگرام کو اٹینڈ کرنے کے بعد میں ایک مضبوط انسان میں بدل چکی ہوں۔ اب مجھے ہر ٹاکسک انسان اور ٹریگرز سے خود کو محفوظ کرنا آ چکا ہے۔ میں جان چکی ہوں کہ میری مینٹل ہیلتھ میری زندگی کے لیے کتنی اہم ہے۔ آخر میں ایک بات ضرور کہوں گی کہ میں نے ڈاکٹر خالد سہیل صاحب اور مقدس مجید صاحبہ کے لیے “درویش” کا لفظ کیوں استعمال کیا۔ میں نے ایک جگہ پڑھا تھا کہ ولی ہونے کا پہلا درجہ یہ ہوتا ہے کہ آپ لوگوں کے لیے بے ضرر ہو جاتے ہیں، اور آخری درجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ بلا جھجک آپ سے فیض حاصل کرنے لگتے ہیں۔ اور یہ دونوں ہستیاں بے لوث خدمتِ خلق میں مشغول ہیں اور اپنی گرین زون فلاسفی سے تکلیف میں مبتلا لوگوں کی زندگیوں میں مرہم رکھ رہے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ یہ فلاسفی ہر انسان تک پہنچے۔ اسی لیے مجھ سے جب بھی کوئی سوال کرتا ہے کہ آپ اتنی پرسکون کیسے رہنے لگی ہیں تو میں فوراً گرین زون فلاسفی سے متعارف کروانے لگتی ہوں۔ جس طرح سبزہ ہماری جسمانی صحت کے لیے ضروری ہے، اسی طرح گرین زون فلاسفی ہماری ذہنی صحت کے لیے ضروری ہے تاکہ ہم خوشگوار زندگی گزار سکیں۔ Leave a Reply Cancel Reply Logged in as admin. Edit your profile. Log out? Required fields are marked * Message*

Blog, Aaliya Arooj

The Present is an Eternity

The Present is an Eternity The humid air on July 20th was heavy and suffocating, just as it always was after a July rain. At 6:30 PM, the sun was about to set as she walked the familiar road back home. The sky was a breathtaking canvas of three shades: misty orange, blue, and peach. But her mind was suffocating too, filled with familiar thoughts: the regret of a past she couldn’t change and the fear of a future she couldn’t control. Walking always soothed her soul, though not her mind. Every day, she passed the same old tree, its roots planted outside the residence of an 18th-century legend. The house stood stark white against the busy road, but nobody offered it a glance in their hurried lives. The sky’s soothing colors offered a temporary escape. As usual, two or three rickshaws—chingchis—slowed down, their drivers asking if she needed a ride. She said no, but they insisted, lingering just to stare—like so many men in this society. Then, a biker pulled up, asked a vulgar question, and sped off. She walked faster, a sense of urgency propelling her forward. Suddenly, her thoughts turned to an old woman struggling to cross the busy road. For a moment, the woman was the center of her attention—a tiny, fragile figure battling the traffic. Then, she reached the other side and disappeared. In that instant, a realization struck Sanober: This is the present.A moment that vanishes in an instant.No one bothers with another’s present because everyone is consumed by their own. She saw a man washing a car, silently wishing for a day off. She thought of a granddaughter visiting a sacred place for the first time with her grandmother—the granddaughter knowing nothing of the place, and the grandmother knowing nothing of the routes. Both were lost in their own worries but had faith in each other. The present is a different moment for everyone. People are so lost in their own moments that they don’t have time to notice anyone else’s. She passed the marquee where her friend had been married just a few months ago. Her friend had since moved away, and now, another couple was inside, awaiting their own wedding ceremony. This, too, was the present. No one here cared about the people who celebrated their wedding yesterday—or months ago—or how their lives were unfolding now. She thought about how she had walked this same road four years ago, on her way to her academy. But nobody remembered. Nobody cared. They had their own moments. Why, then, did she let the past, present, and future consume her? Who truly cared what she had done for the last 30 years, or what she would do in the next? Who cared how her present moments looked to others? She looked up at the new moon, which always appeared just after Maghrib prayers. The moon had witnessed everything: the night of Imam Hussain in Karbala, the night Hazrat Ibrahim saw his dream, the night the Holy Prophet spent his first night after the death of Hazrat Khadija, and the night her own grandmother died. The moon had seen it all and would continue to see everything. So, she decided to stop thinking—just like the road and the moon. They had witnessed incredible moments in history, both joyous and devastating, but they didn’t hold on to a single one. And she?She would be gone. She would leave the earth and the endless cycle of time—past, present, and future.So, it’s better to live in the moment’s eternity. Leave a Reply Cancel Reply Logged in as admin. Edit your profile. Log out? Required fields are marked * Message*

Blog, Suniya Daar

وقت ہر زخم کا مرہم ہے

وقت ہر زخم کا مرہم ہے ایسا کچھ نہیں جتنا دل شکن بسا اوقات یہ احساس ہوتا ہے کہ آپ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں — تھراپی، ڈائری لکھنا، غور و فکر کرنا، ذہنی و جسمانی مشقیں مشکل گفتگوئیں — اور پھر بھی آپ کو وہی جذباتی تکلیف محسوس ہو۔ آپ نے کبھی کتابیں پڑھیں۔ کبھی حدود مقرر کرنے پر کام کیا۔ کبھی تھراپی میں خط لکھا اور پھر اسے رسم کے طور پر جلا دیا۔ پھر بھی، کہیں نا کہیں کسی لیول پر وہی کیفیت واپس آتی ہے، سینے میں جکڑن، وہ مانوس سا خوف، وہ یادیں جو اعصابی نظام کو جھنجھوڑ دیتی ہیں، اور وہ آنسو جو کسی ایک گانے پر بہہ نکلتے ہیں۔ آپ سوچتے ہیں: میرے ساتھ آخر مسئلہ کیا ہے؟ یہ سب ختم کیوں نہیں ہو جاتا؟ آپ خود کو بتاتے ہیں کہ آپ آگے بڑھ چکے ہیں، آپ خود پر بہت کام کر چکے ہیں۔ مگر آپ کا جسم شاید ابھی تک اس حقیقت کو تسلیم نہیں کر سکا ہوتا۔ تب لوگ کہتے ہیں: “بس وقت دو۔”وقت گزرنے کے ساتھ سب بھلا ہو جائے گا اور اگر آپ میری طرح ہیں تو یہ جملہ آپ کو بہت سطحی یا پریشان کن محسوس ہوگا۔ تو کیا میں بس یہاں بیٹھ کر انتظار کروں؟جیسے جیسے وقت گزرے گا سب صحیح ہونے کا انتظار کرتی رہوں؟ میں عام طور پر بہت سی جگہوں پر وہ پہلی انسان ہوتی ہوں جو کہتی ہے کہ صرف وقت ہمیں شفا نہیں دیتا۔ بلکہ یہ اہم ہے کہ ہم اپنے وقت کا استعمال کیسے کرتے ہیں اور میں اب بھی اسی بات پر قائم ہوں لیکن مجھے یہ ماننا ہوگا کہ ہاں وقت اور اسپیس کی بھی ایک اپنی اہمیت ہے۔ وقت ہمیں فاصلے کا موقع دیتا ہے اس چیز، جگہ، شخص یا ان حالات و واقعات سے جن کے ساتھ ہماری اٹیچمنٹ اور سروائیول کی جنگ میں ہمارا سابقہ پیش آتا ہے اور جن سے ہمارا زخم وابستہ ہوتا ہے اور اس وقت کے بیتنے اور فاصلہ ملنے سے ہمیں سمجھنے کی اسپیس میسر آتی ہے کہ آخر کیا ہوا تھا، ہماری تکلیف کی حقیقت کیا تھی، ہماری طرف آنے والی تکلیف میں ہمارا کردار کیا تھا، ہمیں کیا ٹھیک کرنا ہے، ان غلطیوں کو کیسے ہم دوبارہ نہ دہرائیں جن میں ہم مبتلا رہ چکے، اور سب سے اہم یہ کہ ہم اس سب کا مطلب کیسے اخذ کریں جو ہم پر بیت چکا۔یوں سمجھیں وقت اور فاصلہ ہمیں اس جنگل کو درختوں سے الگ دیکھنے کی صلاحیت دیتا ہے جہاں ہم رہ رہے ہوتے ہیں کیونکہ جب ہم جنگل میں رہا کرتے تھے تو جنگل اور درخت ایک ہی محسوس ہوتے تھے اور جب ہم نے وقت کے ساتھ وہاں سے نکل کر اس جگہ اور یہاں موجود ہر چیز ، یہاں درپیش آنے والے مصائب کو باہر سے جانچا تو ایک دوسرے زاویے سے دیکھنا شروع کیا۔ جنگل کو درختوں سے الگ کر کے دیکھا تو بہت کچھ مختلف دیکھنے لگا۔ ژاں پال سارتر نے لکھا: “آزادی یہ ہے کہ آپ اُن چیزوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں جو آپ کے ساتھ ہو چکی ہیں۔اور میں نے پایا ہے کہ روح اور دل و دماغ پر لگے زخموں کے لیے نسخہ شفا بھی بہت حد تک یہی ہےیعنی وہ آزادی کہ ہم اُن زخموں کے غلام نہ رہیں جو ہمیں چیر گئے تھے۔ لاہور شہر میں پیدا ہونے اور پلنے بڑھنے کے باوجود بھی مجھے برسوں اس شہر میں رہنے نے بے حد بے چین رکھا۔ اس شہر میں رہتے ہوئے ہمیشہ میں مضطرب رہی اور میرا آسمان کچھ زیادہ ہی اُداس رہتا۔ ہر وقت یہاں سے نکل کر کہیں دور جا کر بس جانے کے خیالات تنگ کرتے۔ دوپہر تک ایسا لگتا جیسے میں اپنی ہی کھال سے باہر نکل آؤں اور اُسے کسی چیز یا کسی پر دے ماروں۔ کیوں؟ کیونکہ وہ شہر مجھے میرے تعلقات میں میری مسلسل گھبراہٹ کے ادوار، اور اس اندھیرے کے ساتھ کنیکٹ رکھتا جو اُس وقت تک میرے اندر بسا رہا جب تک میں نے پہلی بار محسوس کیا کہ مجھے خود کا ہی کچھ علم نہیں تھا — نہ یہ کہ میں کون ہوں، نہ یہ کہ میں اپنی زندگی کے ساتھ کیا کر رہی ہوں۔ کس اندھیرے میں گم ہوں ۔یہ مجھے اُس خود کی یاد دلاتا تھا جسے میں بھولنا چاہتی تھی —میری ذات کے وہ حصے جو کسی وقت میں کہیں گم تھے، اور میں غلط فیصلے کر رہی تھی۔لیکن دو سال اسلام آباد میں بسنے بہت مہینے کراچی میں خود کے ساتھ وقت گزارتے رہنے کے بعد اب جب پچھلے کچھ مہینے مجھے مسلسل لاہور آنا جانا اور کچھ دن کے لیے قیام کرنا پڑا تو حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ مجھے کچھ بے چینی اور گھبراہٹ محسوس نہیں ہوئی۔ نہ اضطراب، نہ چڑچڑاپن، نہ بے چینی۔ایسا لگا جیسے کسی نے میرے اندر کا وہ زخم مندمل کر دیا ہو۔ جیسے ڈینٹسٹ آپ کے مسوڑھوں پر سن کرنے والی دوا لگا دے تو کسی نا کسی درجے میں دباؤ  محسوس ہونے کے باوجود بھی درد نہیں ہوتا۔ مجھے اب بھی وہ دکھ انہی رشتوں سے مل کر، انہیں رستوں سے گزر کر یاد آتے رہے، جہاں سے میرے زخم جڑے تھے لیکن میں اب اُن زخموں میں نہیں رہ رہی تھی وہ اندھیرا چھٹ چکا تھا جیسا کہ کبھی میرے اندر ماضی میں ہوا کرتا تھا ۔ مجھے لگا میں اپنے زخموں سے کہیں اوپر اٹھ چکی تھی۔ برسوں لگے، تھراپی، خود کی تلاش اور کئی بار سخت اور تکلیف دہ ذاتی تبدیلیاں پیدا کرنے پر کام کرنے میں۔لیکن جب میں نے اپنا کام مکمل کر لیا، تب وقت نے بھی اپنا کام کیا۔ اور اُس نے کیا۔اب میں وہی شہر جا سکتی ہوں، مکمل طور پر پُر سکون ہو کر بے اثر، لاتعلق، بلکہ تھوڑا سا مطمئن بھی۔ وقت اور فاصلہ ہمیں یہ موقع دیتا ہے کہ ہم درد کو حکمت میں تبدیل کریں۔ ہم جو کچھ جھیل چکے ہوں، اُس کو اپنے اندر پائیں تو اُسے خود پر حاوی نہ ہونے دیں۔ فلسفی ہائیڈیگر نے کہا تھا:” ہم وقت میں موجود نہیں ہم خود وقت ہیں۔”ہمارا وجود یادوں، معنی،

Blog, Suniya Daar

غم سے تعلق

غم سے تعلق غم زندگی کا ایک ناگزیر حصہ ہے اور مختلف حالات و واقعات میں پلے بڑھے افراد کی دکھ، غم یا تکلیف کو سہنے اور پراسس کر پانے کی قوت برداشت مختلف ہوتی ہے۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے نروس سسٹم ڈیویلپمنٹ اس کو میسر آنے والے ماحول اور مواقع پر منحصر ہوتی ہے اور مختلف ماحول و ذرائع میں پلے بڑھے انسانوں کے لیے نروس کیپسٹی یا قوت برداشت کا مختلف ہونا فطری ہی نہیں ایک سائنسی حقیقت ہے۔نیورو سائیکالوجی کی سائنسی تحقیقات پر کچھ لوگ اپنی تکلیف کو اسی لیے کم وقت میں جبکہ کچھ لوگ قدرے زیادہ وقت میں پراسس کر پاتے ہیں اور ہر کسی کی رفتار انفرادی ہوتی ہے۔ یہ جاننا بہت اہم ہے کہ بہت سے افراد خود کو درپیش دکھ یا تکلیف سے کہیں زیادہ اپنی تکلیف پر اپنے ردعمل یا اظہار کے طریقوں پر اپنی طرف آنے والے معاشرتی و اجتماعی رویوں کے باعث نفسیاتی عارضوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔معاشرہ اور اردگرد کے لوگ عمومی طور پر ہم سے یہ توقع کرتے ہیں کہ ہم جلدی آگے بڑھ جائیں۔ کسی بھی فرد کی انفرادی قوت برداشت اور نیورل کیپیسٹی(Neural capacity) کا لحاظ کیے بغیر اس کا موازنہ جلدی آگے بڑھ جانے والے لوگوں سے کرتے ہوئے اسے کمزور تصور کیا جاتا ہے۔ تکلیف میں مبتلا انسان کے انفرادی رد عمل و اظہار کو سمجھنے اور قبولیت فراہم کرنے کے بجائے اسے مسلسل جج کیا جاتا ہے۔ جذباتی سہارا دینے کے بجائے پند و نصائح  کی بوچھاڑ کر دی جاتی ہے۔ڈاکٹر جوآن کیچیٹورے کی کتاب “Bearing the Unbearable” اس سوچ کے خلاف ایک نرم مگر طاقتور پیغام دیتی ہے۔یہ کتاب فوری حل یا آسان جواب اور پند و نصائح فراہم کرنے کی بجائے ان لوگوں کے لیے ایک محبت بھرا ساتھی بن جاتی ہے جو کسی عزیز کے بچھڑنے یا کسی درد کے کٹھن سفر سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ اس کتاب کے چند پیغامات کچھ اس طرح ہیں ۔ہر شخص کا غم دوسرے سے مختلف ہوتا ہے، جیسے ہر انسان کے انگلیوں کے نشان الگ ہوتے ہیں۔غم منانے کا کوئی ایک طریقہ نہیں ہو سکتا۔اس انفرادیت کو تسلیم کرنا ہمیں اس دباؤ سے آزاد کرتا ہے کہ ہم دوسروں کی توقعات کے مطابق غم کا اظہار کریں۔غم صرف ایک جذباتی کیفیت نہیں بلکہ جسمانی طور پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔تھکن، نیند کا خراب ہونا یا بھوک میں کمی جیسے علامات بہت عام ہیں۔ان علامات کو سنجیدگی سے لینا اور جسم کی آواز سننا اس وقت بہت ضروری ہوتا ہے۔ ارد گرد کے لوگوں کا ان علامات سے گزرنے والے فرد کے ساتھ ہمدردانہ رویہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔غم تکلیف دہ ضرور ہوتا ہے البتہ یہ ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم زندگی میں کچھ کھو دینے یا زندگی کے تلخ حقائق کے ساتھ اپنے تعلق کو ایکسپلور کریں ۔یہ تعلق شعوری طور پر ایکسپلور کرنا دل کو سکون، قبولیت اور مقصد دے سکتا ہے۔شفا ایک سیدھا، فکسڈ اور آسان راستہ نہیں بلکہ نشیب و فراز سے بھرا سفر ہے۔یہ ضروری ہے کہ ہم خود کو ہر قسم کے جذبات کو محسوس کرنے کی اجازت دیں، بغیر کسی شرمندگی کے۔آہستہ آہستہ اٹھایا گیا ہر قدم، چاہے چھوٹا ہی کیوں نہ ہو، ایک بڑی کامیابی ہوتا ہے۔غم کے دوران دوسروں سے جڑنا زندگی کی ڈور بن جاتا ہے۔ایسے لوگوں کے ساتھ تجربات بانٹنا جو خود بھی اسی راہ سے گزرے ہوں، یا آپ کو سمجھنے اور سپورٹ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہوں ایک محفوظ ماحول فراہم کرتے ہیں۔ایسا ہمدردی بھرا تعلق دل کو تقویت دیتا ہے۔ اگر آپ کے ارد گرد ایسے لوگ یا ایسا کوئی ذاتی سرکل موجود نہیں تو کسی ماہر نفسیات سے رجوع کرنا اور ایکسپرٹ کے ساتھ اپنے جذبات کا اظہار نان ججمنٹل اسپیس میں کرنا اپنی ذات اور دکھ سے تعلق استوار کرنے میں مدد گار ہوتا ہے۔غم انسان کو انتہائی کمزور اور نازک محسوس کرا دیتا ہے۔ اس کمزوری کو اپنانا، کھلے دل سے قبول کرنا انسان ہونے کا فطری اور خوبصورت حصہ ہے۔یہی نرمی ہمیں اصل شفا یعنی اپنی ذات سے گہرے اور انسانیت پر مبنی تعلق اور زندگی کے حقائق کو قبول کر کے انکے ساتھ اندرونی سکون پیدا کرنے کی طرف لے جاتی ہے۔غم کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو “ٹھیک” کیا جا سکے۔یہ ایک لمبی زندگی کا حصہ بن جاتا ہے، جس کے ساتھ ہمیں جینا سیکھنا ہوتا ہے۔وقت کے ساتھ غم بدل سکتا ہے، پھر سے سامنے آ سکتا ہے، لیکن اپنی ذات اور زندگی کے حقائق کے ساتھ صحت مند تعلق جینے کو ہمارے لیے با معنی بناتا ہے۔  اپنے غم سے اوپر اٹھ کر اپنی زندگی کو جینا، اس میں آگے بڑھتے رہنا بھی اسی کے ساتھ ممکن ہوتا ہے۔ Leave a Reply Cancel Reply Logged in as admin. Edit your profile. Log out? Required fields are marked * Message*

Blog, Qurratulain Shoaib

جذباتی مردہ خانے

جذباتی مردہ خانے پہلا شخص: یار سنو تمھیں معلوم ہوا کہ مصنوعی سانس بہت مشکل سے دستیاب ہے۔ لوگ تیزی سے جذباتی موت مر رہے ہیں۔ بازاروں میں دکانوں پر حتی کہ اب بلیک میں بھی مصنوعی سانس دستیاب نہیں۔ دوسرا شخص: تو پھر شرح اموات بہت زیادہ ہوگئ ہوگی۔ پہلا شخص : بالکل، شرح اموات اتنی ہے کہ اس کو درج کرنے کے لیے حکومتی سطح پر بھی کوئی خاص اقدامات نہیں اٹھائے گئے ۔ دوسرا شخص : رشتہ داروں کی طرف سے یا حکومت کی طرف سے ان کے کفن دفن کا کوئی انتظام نہیں ؟ پہلا شخص : بالکل نہیں ایسا کوئی انتظام نہیں، حتی کے انتہائی قریبی عزیز بھی ان کے جذباتی جنازوں میں شامل نہیں ہوتے۔ وہ خود ہی اپنی قبر کھودتے ہیں اور رات کے اندھیروں میں تنہا خود کو دفناتے ہیں۔ دوسرا شخص : ان کی قبر مزار یا کوئی نشانی جہاں فاتحہ پڑھی جا سکے؟ پہلا شخص : ارے بھائی, جو جیتے جی نہیں پوچھتے وہ کسی مزار پر فاتحہ پڑھنے کیوں آئیں گے۔ یہاں لوگ جذباتی موت کا سبب تو بنتے ہیں۔ لیکن مرنے سے بچانے کے لیے کوئی آگے نہیں آتا۔ یہ خود ہی اپنی قبروں پر حاضری دیتے ہیں اور خود ہی اپنے لیے فاتحہ پڑھتے ہیں۔ دوسرا شخص: بہت افسوس ناک صورت حال ہے۔ تو حکومت اتنے بڑے بحران پر کچھ نہیں کرتی؟ پہلا شخص : حکومت کی ترجیحات مختلف ہیں۔ انھیں کھانے پینے اور مال سمیٹنے کی فکر ہے۔ انسانی المیہ ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ دوسرا شخص : مصنوعی سانس کون بناتا ہے۔ یہ فیکٹریاں کہاں ہیں۔ کیا حکومت ان فیکٹریوں کو سپورٹ کرتی ہے ؟ پہلا شخص : پہلے مصنوعی سانس کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ پھر ڈیجیٹل ڈیوائسز مصنوعی سانس مہیا کرنے لگیں۔ اب وہ آوٹ ڈیٹڈ ہیں۔ کچھ لوگوں کے دوست اور عزیز و اقارب بھی مصنوعی سانس کا کام کرتے تھے۔ اب وہ سب بھی میسر نہیں رہے۔ اور حکومت کا ایسا سپورٹ کا کوئی پروگرام نہیں۔ بلکہ وہ بجلی کے بلوں اور ٹیکسوں کی بھرمار اور مہنگائی کی گھٹن سے لوگوں کی بچی کچی سانسیں بھی کھینچ لیتی ہے۔ دوسرا شخص : آخر اس بحران کی وجہ کیا ہے؟ پہلا شخص : کچھ خاص نہیں، بس مفادات اور خودغرضی کی جنگوں کے بعد فضا میں تعفن اور آلودگی بہت پھیل گئی۔ کچھ لوگ سروایو کر جاتے ہیں لیکن زیادہ تر لوگ مصنوعی سانس کے بغیر نہیں چل پاتے۔ دوسرا شخص: اس تکلیف سے بچانے کے لیے کوئی ادارہ ، کوئی بحالی سینٹر کوئی ہسپتال ؟ پہلا شخص : ہسپتال تو کچھ موجود ہیں۔ مہنگے ہیں تو زیادہ تر جذباتی گھٹن کا شکار لوگوں کی ان تک رسائی نہیں ہے۔ آکسیجن کی بھی کمی ہے بعض ہسپتالوں میں۔ ڈاکٹرز بھی بس سپورٹ کرتے ہیں۔ زیادہ تر مریض کو خود ہی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ یوں بھی عوام کی مدد اور فلاح کے ادارے بنانا ہمارے ملک میں مشکل کام ہے۔ لوگ کاروبار کرنا پسند کرتے ہیں یہ ادارے جو حقیقی طور پر فلاحی ہوں بڑے جھنجھٹ کا کام ہے۔ دوسرا شخص: آبادی کے تناسب سے کتنی جذباتی اموات ہو چکی ہیں؟ پہلا شخص: معلوم نہیں پہلے بھی بتا چکا ہوں۔ اموات کی شرح زیادہ ہے۔ میڈیا صرف گولی، دھماکوں اور جنگوں سے مرنے والوں ،قتل کر دیے جانے والوں ، سیلاب میں بہہ جانے والوں ،زلزلہ میں دب کر مرنے والوں ، اور لٹکا کر مار دیے جانے والوں کی خبریں دیتا ہے ۔۔۔۔ جذباتی موت کی خبر نہیں چلتی ۔ دوسرا شخص : کیا عدالتیں اس جذباتی موت پر انصاف مہیا کرتی ہیں ؟ پہلا شخص : فلحال عدالتوں اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں کے لیے ایسے کیسسز مضحکہ خیز ہوں گے۔ کوئی مخصوص عدالتیں نہیں ہیں۔ہمارے ہاں انصاف سستا ہی کہاں ہے۔ ابھی تو گولی سے مرنے والوں کے کیسسز ہی سالوں سے انصاف کے منتظر ہیں۔ جذباتی موت مرنے والوں کی حقیقی موت بھی واقع ہو جائے تو اس نظام میں انصاف نہیں مل سکتا۔ دوسرا شخص : مجھے تو لگتا ہے کہ یہ شہر زومبیز سے جلد بھر جائے گا۔ پہلا شخص : ہاں مرے ہوئے شخص کا زندہ لوگوں کی طرح چلنا پھرنا اور زندگی جینا گویا اسی طرح ہے جیسےزومبیز ۔۔۔دوسرا شخص : کیا جذباتی قتل کی کوئی سزا ہے۔ پہلا  شخص : یہاں کے قانون کے مطابق جذباتی قتل کی سزا مقتول ہی سہتا ہے۔ اور ہمیشہ سہتا ہے۔ جب کہ قاتل پر کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی۔ دوسرا شخص : یہ صورت حال تو کافی تشویش ناک ہے۔ پہلا شخص : ہے تو سہی لیکن کیا کہہ سکتے ہیں ۔ دوسرا شخص : اچھا بھائی بہت وقت ہوگیا چلتے ہیں ابھی گھر جا کر بڑے بھائی کو گھر سے نکالنا ہے۔ زیادہ بولتا نہیں ، معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتا۔ محبت کرنے والا ہے ، قربانی دینے والا ہے ۔۔۔ لیکن ڈر ہے کہ ذہین بہت ہے۔ سارے کاروبار پر قبضہ نہ کر لے۔ کچھ کرنا پڑے گا، دعا کرنا پہلا شخص: ہاں جی ! کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑتا ہے۔ میری چھوٹی بہن بھی نرس بننا چاہتی تھی ۔ اچھے نمبروں سے پاس ہوئی تع میں نے شادی کر دی زبردستی۔ پتہ تو ہے ہسپتالوں کے معاملات، ہماری ناک کٹواتی ۔۔۔۔۔ اب اس کے چار بچے ہیں۔ خوب خاوند نے باندھ کر رکھا ہے۔ ہماری بلا سے اب شوہر جانے اور وہ جانے۔ ہماری عزت تو بچی ۔۔۔۔ پہلا شخص : ہاں بس پھر کچھ نہ کچھ تو کرنا ہوتا ہے۔اچھا پھر ملیں گے، خدا حافظ! Leave a Reply Cancel Reply Logged in as admin. Edit your profile. Log out? Required fields are marked * Message*

Scroll to Top