اب مارل بولے گا قسط 4
اب مارل بولے گا قسط 4 تحریر ابصار فاطمہ مارل شاہی بازار کی آخری دکان کی اوٹ سے بچوں کے جھنڈ کو گزرتے دیکھ رہا تھا۔ اس میں اکثر بچے اسی کی عمر کے تھے۔ یہ بھی سارے بچے غریب ہاریوں کے تھے نہ تن پہ مکمل کپڑے نہ پیر میں چپل۔ مگر وہ خوش تھے۔ ان کے قہقہوں میں کھنک تھی۔ مارل کو نہیں یاد وہ کب دل سے ہنسا تھا۔ وہ ہنستا بھی تھا تو آنکھیں بھیگ جاتی تھیں۔ اس کے تن پہ بھی ویسا ہی سادہ لباس تھا۔ مگر اس کی تقدیر ان کی تقدیر سے بہت مختلف تھی۔ اتنی مختلف کہ چہرے کے نقوش کے ساتھ کھدی تھی۔ اسی ٹولے میں سے کسی کی نظر اس پہ پڑی اس نے وہیں سے آواز لگائی اوو کارا۔۔۔۔ اووو کارا۔۔ مارل فوراً دیوار کی اوٹ میں چھپ گیا۔ اس کی گہری سیاہ آنکھوں سے گھبراہٹ عیاں تھی۔ سخت، گھونگھریالے بالوں سے پسینے کے قطرے بہتے ہوئے چہرے تک آگئے تھے۔ قہقے قریب آرہے تھے کچھ دیر پہلے کے بے فکر قہقہوں میں کھنک کہ جگہ اب حقارت کی سختی عود آئی تھی۔ —– —— —— —— سب کچھ بہت جلد نمٹ گیا۔ یا شاید خود بخود کیا نمٹتا اسی نے جیسے بس کر گزرنے کی ٹھان لی تھی۔ کسی اگر مگر کو دماغ میں نہیں آنے دیا تمام خدشوں کو اپنے لاشعور میں کہیں دفن کردیا۔ اور ایک ماہ کے اندر اندر وہ فرزانہ نور علی بن گئی تھی۔ رخصت ہوکر وہ اسی شہر کے ایک فلیٹ میں گئی جو نور علی نے رشتہ طے ہوجانے کے بعد کرائے پہ لیا تھا۔ لیکن ایک بات جو اس کے اور نور علی کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں تھی وہ یہ کہ یہ گھر صرف نور علی کے نام سے کرائے پہ نہیں لیا گیا تھا اس کا کرایہ اور گھر میں آنے والے سامان کا خرچ دونوں کا آدھا آدھا تھا۔ کرایہ نامہ دونوں کے نام بنا تھا کوئی کسی دوسرے کو یہ کہہ کر گھر سے نہیں نکال سکتا تھا کہ یہ میرا گھر ہے۔ کئی اور بہت سی چھوٹی بڑی شرائط تھیں جو ان دونوں کے درمیان بہت پہلے سے طے تھیں لیکن نکاح نامے میں درج نہیں تھیں کیوں کہ اگر یہ مسئلہ دونوں خاندانوں کے بیچ رکھا جاتا تو نہ ختم ہونے والی بحث شروع ہوجاتی جو کم از کم فرزانہ فی الحال بالکل نہیں چاہتی تھی۔ اسے پتا تھا یہ ان دونوں کے درمیان کا معاملہ ہے جسے وہ دونوں ہی آپس میں نمٹائیں تو بہتر ہے۔ اس کے باوجود یہ کمزور سا نکاح نامہ جس پہ اس کے تحفظ کے لیے ایک بھی شرط موجود نہیں تھی مسلسل اسے عجیب سی کیفیت میں مبتلا کر رہا تھا۔ اس نے کئی بار خود کو یقین دلایا کہ مسئلہ نکاح نامے میں نہیں ہے بس وہ پچھلے تجربے سے ڈری ہوئی ہے۔ نور علی کے تقریباً تمام ہی رشتے دار شہر آئے ہوئے تھے۔ ساری خواتین تو اسی فلیٹ میں تھیں اور مردوں کے لیے اسی عمارت کی ایک اور منزل پہ انتظام کیا ہوا تھا۔ ان مہمانوں میں نور علی کی بیٹی مومل بھی شامل تھی جو زیادہ تر اپنی دونوں پھپھیوں میں سے کسی کے پاس نظر آتی تھی۔ یا جیسے ہی اسے نور علی، فرزانہ سے دور نظر آتا تو اس کے پاس لگ کے بیٹھ جاتی تھی۔ یہ دیکھ کر اس کا دل شرمندگی اور دکھ کے احساس سے بوجھل سا ہوجاتا تھا لیکن اس کے باوجود اس نے کوئی ردعمل دینے سے احتراز کیا۔وہ پہلے نواز علی کے گھر کے ماحول کو سمجھنا چاہتی تھی۔ جو فی الحال اسے ناممکن سا لگ رہا تھا۔ اسے کسی حد تک سندھی سمجھ آجاتی تھی لیکن دیہاتی لہجے میں بلند آواز سے بیک وقت بولتی تمام خواتین کی ایک بات بھی سمجھ نہ آپاتی، کچھ وہ بھی اسے دیکھتے ہی کھسیانے سے انداز میں خاموش ہوجاتی تھیں۔ ہاں ایک لفظ جو تواتر سے اس کے کان میں پڑ رہا تھا وہ تھا “دھاری” اور لاشعوری طور پہ اسے لگا کہ یہ لفظ اس کے لیے ہی استعمال ہورہا ہے۔ اس نے یہ تمام اہم غیر اہم لیکن دماغ میں چبھتی رہنے والی باتیں جمع کرکے رکھ لیں تھیں تاکہ کچھ وقت گزرنے کے بعد نور علی سے ان پہ بات کرسکے۔ ولیمے کے دو دن کے اندر اندر اکثر رشتے دار واپس چلے گئے۔ مومل بھی اپنی پھپھیوں کے ساتھ ہی گاؤں چلی گئی اب یہاں فرزانہ کے ساتھ صرف نور علی کی والدہ اور تائی رہ گئیں۔ نور علی کی والدہ چھریرے سے بھی کچھ دبلے جسم کی حامل متحرک سی خاتون تھیں جنہیں فرزانہ نے اتنے دن کچھ نہ کچھ کرتے ہی پایا۔ جب کہ تائی ذرا بھاری جسم کی خاتون تھیں جو اکثر ایک ہی جگہ بیٹھی رہتی تھیں لیکن جہاں وہ بیٹھتی تھیں ساری خواتین بھی اسی جگہ ان کے گرد بیٹھ جاتی تھیں۔ فرزانہ نے غور کیا تھا کہ اکثر گفتگو کی پتوار انہی خاتون کے ہاتھ میں رہتی تھی اور وہ اپنی مرضی سے گفتگو کا رخ موڑتی رہتیں تھیں۔ ان کا باقی سب کے جانے کے بعد بھی رکنا فرزانہ کے اعصاب کو کسی حد تک کشیدہ کر رہا تھا۔ اسے اندازہ تھا کہ وہ اس قسم کی خاتون ہیں جن کی ہر چیز پہ نہ صرف گہری نظر ہوتی ہے بلکہ ایک غیر متزلزل قسم کی رائے بھی ہوتی ہے۔ نور علی نے بتایا تھا کہ وہ اس کے تایا کی پہلی بیوی تھیں خاندان کی سب سے بڑی بہو۔ پھر تقریباً آٹھ سال اولاد کا انتظار کرنے کے بعد تایا کی دوسری شادی کروا دی گئی لیکن بڑی تائی کو باقاعدہ گھر کی خواتین کا سربراہ بنادیا گیا تاکہ انہیں یہ محسوس نہ ہو کہ ان کی اہمیت کم ہوگئی ہے۔ یہ بات نور علی نے بہت فخر سے بتائی تھی اور فرزانہ خود بھی کسی حد تک گاؤں کے اس چلن سے متاثر ہوئی تھی۔ اسی لیے وہ ان کے رکنے پہ گھبراہٹ کا شکار تھی ان کی اس کے لیے بنی رائے ہمیشہ کے لیے پورے خاندان میں اس کی حیثیت کا تعین کردیتی۔ وہ مسلسل خود کو دل ہی







