!اب مارُل بولے گا

ابصار فاطمہ

قسط نمبر 1

او مارل بچڑا! ادھر آ۔۔۔
حاکم سائیں کے وسیع دربار میں جھاڑو دیتے مارل کے ہاتھ کچھ لمحے کو رکے اور اس کے معصوم چہرے پہ خوف کا سایہ لہرایا۔ حاکم سائیں نے دوبارہ اسے دربار سے ملحقہ حجرے میں بلایا تھا۔ وہ تاریک حجرہ جس کی تاریکی شاید صرف مارل کو نظر آتی تھی۔ ہر دفعہ وہ تاریکی گہری ہوتی جارہی تھی اور ساتھ ہی مارل کی چپ بھی۔ وہ غلام تھا اور اس حاکم سائیں کا ہر حکم بجا لانا اس کا فرض۔

————-

“یہ تمہارے علاقے کے ابو کبھی کچھ نہیں کریں گے تم لوگ پتا نہیں کیوں جانتے بوجھتے بھی ہر بار اسی شخص کو ووٹ دیتے ہو۔ مجھے تو لگتا ہے تم لوگ خود بھی حالات نہیں بدلنا چاہتے۔”

اس کی نظریں اپنی پیالی پہ تھیں جس میں پڑے دو ٹی بیگز کو وہ ہر ممکن حد تک کھولتے پانی میں گھول دینا چاہتی تھی۔ یا شاید اس کی نظریں ٹی بیگز پہ ضرور تھیں مگر دماغ کا محور اپنی بات تھی اسی لیے بات ختم ہوتے ہی اس نے ٹی بیگز کو چمچ پہ رکھ کر آخری بار نچوڑا اور چمچ سمیت بسکٹ کی پلیٹ میں رکھ دیا۔
“فیری یار, تم اتنی کڑوی چائے کیسے پی لیتی ہو؟”
“نور یار، تم اپنے ہی علاقے کے مسائل سے اتنے لا تعلق کیسے رہ لیتے ہو؟”۔
نور علی چند لمحوں تک اسے بغیر پلکیں جھپکائے دیکھتا رہا۔ پھر جھنجھلاہٹ آمیز انداز میں کندھے جھٹکے۔ اس کے انداز میں فرزانہ کے لیے تو نہیں لیکن اس کی بات کے لیے واضح ناگواری تھی۔
“کچھ بولو گے نہیں؟”
” کیا بولوں یار؟ ہمیں ایک گھنٹہ ملتا ہے لنچ کا، جو اکثر پورا بھی نہیں ملتا اور تمہیں اپنی بات کرنے کی بجائے سیاست ہی کیوں یاد آتی ہے؟” اس نے اپنے سامنے رکھی چائے کی پیالی ایک طرف کردی اور میز پہ دونوں کہنیاں رکھ کے تھوڑا آگے جھک کے بیٹھ گیا۔
“آج میں ہاف ڈے کر لیتا ہوں۔ تم بھی کرلو واپس اوپر جانے کی بجائے یہیں بیٹھ کے مسئلہ حل کر لیتے ہیں اور میرے گاؤں کو فرانس بنا کے ہی اٹھیں گے۔”
اس کی جھنجھلاہٹ آمیز سنجیدگی پہ فرزانہ ایک دم ہنس پڑی۔
“اچھا ناں ناراض کیوں ہورہے ہو۔ تمہیں پتا ہے مجھے یہ مسائل کتنا اسٹریسڈ کردیتے ہیں۔ تم سے بات نہ کروں تو کس سے کروں۔”
“مجھے بالکل مزا نہیں آرہا۔۔۔۔ ہنستی رہو جتنا مرضی۔ مطلب تم لوگ ایسے ظاہر کرتے ہو جیسے شہر میں تو کوئی مسائل ہی نہیں ہیں۔ سارے مسئلے گاؤں میں ہیں وہ بھی میرے گاؤں میں۔”
” نہیں ہیں؟” فرزانہ کا سوال سنجیدہ تھا لیکن انداز شرارتی تھا۔
“مطلب مسئلے ہیں۔۔۔۔۔ لیکن ایسے نہیں ہیں جیسے پیش کیے جاتے ہیں۔ وہ بھی اسی ملک کا حصہ ہے جہاں کا شرح خواندگی صرف کاغذات میں بڑھ رہا ہے۔ جہاں صرف نام لکھنے والے کو پڑھا لکھا شمار کیا جاتا ہے۔ نہ میرا گاؤں آسمان سے اترا ہے نہ یہ صوبہ۔”
اس کے انداز میں کسی حد تک بے بسی نمایاں تھی۔ فرزانہ کو اس پہ ترس آنے لگا۔ ہر بار وہ یہی کوشش کرتی تھی کہ ان کی بات چیت عمومی مسائل تک رہے لیکن کب اور کیسے بات مسائل سے ہوتی ہوئی سیاست اور خاص طور سے نور علی کے گاؤں تک پہنچ جاتی تھی۔ اسے یہ بھی اندازہ تھا کہ یہ بحث ان کے اچھے خاصے تعلق پہ بھی اثر کر رہی ہے۔ بلکہ صرف اچھا خاصا کہنا تو کافی نہیں تھا اچھا خاصا رومانوی تعلق تھا۔
“اچھا چھوڑو تم چائے تو پیو۔”
“ٹھنڈی ہوگئی ہے۔” نور علی کا لہجہ کچھ روٹھا ہوا سا تھا۔
” ارے مائی فیوڈل لارڈ۔۔۔ معاف فرما دیجیے۔”
“یار فیوڈل مت کہا کرو!”
” تو نہیں ہو کیا؟”
” بیٹا ہوتا نہ اصلی والا فیوڈل یہاں آفس میں جوتے اور دماغ نہیں گھس رہا ہوتا۔ نہ تمہاری جیسی خود مختار لڑکی سے محبت کی پینگیں بڑھا رہا ہوتا۔” اس نے کہتے ہوئے موبائل اسکرین آن کرکے وقت دیکھا اور میز سے کھڑا ہوگیا۔
” خود مختار عورت” فرزانہ نے بیچ میں سے بات اچک کر تصحیح کی۔ وہ بھی ساتھ ہی کھڑی ہوگئی تھی۔
” بتیس سال کی عورت نہیں ہوتی۔” دونوں کینٹین سے باہر کی طرف بڑھ چکے تھے۔
” بتیس سال کی ‘مطلقہ’،۔۔۔ عورت ہی ہوتی ہے۔” اس نے مطلقہ پہ تھوڑا زور دیا۔ کینٹین سے باہر اکا دکا لوگ بر آمدے میں آتے جاتے دکھائی دئیے۔
“اب اس پہ لڑ لو۔” وہ دونوں بات کرتے کرتے لفٹ نظر انداز کرکے زینے کی طرف بڑھ گئے۔
“ارے لڑ نہیں رہی۔ بس ایسے ہی کہہ رہی تھی۔ تمہارے مجھے لڑکی کہہ دینے سے تمہارے اور میرے درمیان موجود عمر کا فرق ختم نہیں ہوجائے گا۔” زینے پہ پہلا موڑ مڑتے ہوئے دونوں کے ہاتھ مبہم سے ٹکرائے۔
نور علی نے غیر محسوس انداز میں فرزانہ کا ہاتھ تھام لیا۔ وہ اس کی طرف دیکھے بغیر بھی بتا سکتا تھا کہ وہ مسکرا رہی ہے۔ صرف لبوں سے نہیں آنکھوں سے بھی۔
” محترمہ آپ نے ڈگری پڑھ کے لی تھی یا نقل کی تھی۔”
“نقل کی تھی۔” اس کے شرارتی طنزیہ لہجے کو وہ بھی اچھی طرح پہچانتی تھی۔
” اسی لیے۔۔۔” نور علی کے لہجے میں مصنوعی افسوس تھا۔
” پڑھ کے ڈگری لی ہوتی تو کم از کم یہ لڑکی بڑی نہیں ہونی چاہیے والی غلط فہمی تو نہ ہوتی۔ دو سال کے فرق سے ویسے بھی آپ ضعیفہ نہیں ہوگئیں۔ میرے کام آہی جائیں گی۔” زینے کی تنہائی نے اس کا انداز اور لہجہ بدل دیا تھا۔ بے ساختہ فرزانہ کی مسکراہٹ گہری ہوگئی
” یہ ڈبل میننگ جوک بالکل مت کیا کرو میرے ساتھ۔” اس کے لہجے میں بھی مصنوعی ناراضگی تھی۔
“سوری خاتون میں رن مرد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بچی کا باپ ہوں اس لیے ذومعنی والے سے کام چلائیں یک معنی والے واضح لطائف برائے بالغین کی توقع مجھ سے ہرگز مت کریں۔”
” رن مرید ہوتا ہے۔”
” وہ اردو میں ہوتا ہے۔ رن مرد مطلب بیوہ مرد۔”
” توبہ۔۔۔۔ تو رنڈوا کہو ناں”
“ارے تو سمجھ گئیں ناں کافی ہے۔”
آفس کا دروازہ سامنے آتے ہی فرزانہ نے آہستگی سے ہاتھ چھڑا لیا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔

3 Comments

  • Isha Khan

    Amazed 🎀

  • Isha Khan

    Unmatched 💓

  • Sheraz Jafri

    Agli qist ka intezar rahy ga

Leave a Reply to Isha Khan Cancel Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top