سنیہ ڈار

جب ہم کسی اور کی کہانی میں خود کو دیکھتے ہیں، تو اکثر نظریں چرا لیتے ہیں۔درحقیقت تو ہم سب چاہتے ہیں کہ ہمیں سمجھا جائے، لیکن ہمیں اس بات کا ڈر بھی ہوتا ہے کہ ہمیں واقعی پہچان لیا جائے۔

ہم تھراپی میں اپنے مسائل کو ایک قیمتی خزانے کی طرح تھامے آتے ہیں، صرف یہ جاننے کے لیے کہ ہم شروع سے ہی غلط سوالات پوچھتے رہے ہیں۔ ہمارے سب سے گہرے زخم اکثر اوقات اُن باتوں یا واقعات ہی کی وجہ سے نہیں ہوتے جو ہمارے ساتھ ہوئیں، بلکہ اُن کہانیوں سے ہوتے ہیں جو ہم نے زندہ رہنے کے لیے اپنے اندر تخلیق کر لیں اور ہم ان کہانیوں میں جینے لگے۔ سچ خاموشی سے آتا ہے، اُن چھوٹے لمحوں میں جب ہم آخرکار تکلیف دہ حقائق کا سامنا کرنے سے بھاگنا چھوڑ دیتے ہیں۔ جب ہم اندر کی کہانیوں میں اپنے فرار حاصل کرنے کو چیلنج کرتے ہیں۔ اپنی ذات اور زندگی کے جن حصوں کو ہم سب سے زیادہ چھپاتے ہیں، اور اپنے جن حقائق سے ہم بھاگتے رہتے ہیں انہیں جرات اور وقار سے دیکھ پانے اور قبول کر پانے سے ہی شفا کا آغاز ہوتا ہے۔

تھراپی میں بیٹھے دو عام انسانوں کے درمیان اکثر آنسو بہتے ہیں، جبکہ ایک ہر چیز کو ٹھیک کرنے کی خواہش سے لڑ رہا ہوتا ہے اور دوسرا اپنے ایک ہاتھ میں توثیق و تسلی اور دلاسے کے ساتھ دوسرے ہاتھ میں آئینہ لیے بیٹھا ہوتا ہے تا کہ لڑنے والا اس میں اپنی ذات اور حقائق کا عکس دیکھ سکے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ کبھی کبھی مدد اور اصل حل بس یہی ہوتا ہے کہ دردناک لمحات میں ساتھ موجود رہا جائے اور خود سے حالت جنگ میں مبتلا انسان کا اپنے ہی اندر موجود اس کے اپنے مسیحا سے تعلق بحال کیا جائے ۔ ہم مسائل کا فورا حل چاہتے ہیں ، جبکہ بعض اوقات اُنہیں حل کرنے کی بجائے صرف تسلیم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم غیر محسوس جذبات کے ساتھ بیٹھنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں، اور جلد حل ڈھونڈنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اصل تعلق کامل الفاظ میں نہیں ہوتا — بلکہ اُس ہمت میں ہوتا ہے جو ہمیں روکے رکھتی ہے جب دل چاہتا ہے کہ ہم سب کچھ چھوڑ دیں۔ ہماری گہری شفا تب آتی ہے جب ہمیں واقعی دیکھا اور محسوس کیا جاتا ہے، اور جب ہمارا تانہ بانہ ہمارے اندر کے مسیحا سے جڑ جاتا ہے نہ کہ جب ہمیں کوئی جواب یا حل ملتا ہے۔

ایک تشخیص اچانک سامنے آتی ہے، جو ہمارے خود کو دیکھنے کا انداز بدل دیتی ہے اور عام لمحوں کی خوبصورتی کو بے نقاب کرتی ہے۔  ہمیں آزادی تب ملتی ہے جب ہم موت سے انکار کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور زندگی کی مختصر مدت کو قبول کرتے ہیں۔ ہم جینے کو مؤخر کرتے ہیں، کامیابیوں اور کامل رشتوں کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں، اور یہ نہیں دیکھ پاتے کہ انجام کا خوف ہمیں حقیقی آغاز سے روکے رکھتا ہے۔

ہمارا محدود وقت کوئی ظالمانہ مذاق نہیں — بلکہ وہ چیز ہے جو ہر چیز کو معنی دیتی ہے۔ وقت قیمتی تب بنتا ہے جب اُس کی حدود ہوں؛ محبت گہری تب ہوتی ہے جب ہم اُس کی نازکی کو پہچانیں۔ ہماری فانی حیثیت خوشی کو برباد نہیں کرتی — وہی تو اُسے جنم دیتی ہے۔
“کچھ بھی کام نہیں کر رہا”، ہم کہتے ہیں، حالانکہ ہم وہی پرانے طریقے دہراتے رہتے ہیں ایسے بہت کچھ سے اپنی نظریں چرا کر جو موجود تو ہے لیکن ہمارے لیے نیا ہے اور پرانے طریقوں پر زندگی گزارتے رہنے کا کمفرٹ ہی وہ چیز ہے جو ہمیں مطلوبہ زندگی سے دور رکھتا ہے۔

ہمارے اندر کا ایک بڑا فریب یہ ہوتا ہے کہ تبدیلی بڑے بڑے ڈرامائی فیصلوں سے آتی ہے، جبکہ تبدیلی درحقیقت مسلسل لیے جانے والے بہت چھوٹے چھوٹے قدموں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ہم کسی بجلی کے کوندنے کا انتظار کرتے ہیں، جبکہ ایک سادہ، سچا سوال کرنے، ایک حد مقرر کرنے، یا ایک لمحے کے لیے کمزوری دکھانے کی طاقت کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ ترقی بڑی بڑی باتوں میں نہیں، بلکہ چھوٹے چھوٹے تجربات میں ہوتی ہے جہاں ہم نئے طریقے آزماتے ہیں۔ آگے کا راستہ کسی اچانک وارد ہونے والی بصیرت سے نہیں، بلکہ ایک غیر یقینی قدم اٹھانے اور پھر اٹھاتے رہنے سے ظاہر ہوتا ہے۔ ہماری شفا کسی کامل فہم سے نہیں، بلکہ روزانہ کی گئی چھوٹی سی مشق اور  نامکمل ہمت سے آتی ہے

Scroll to Top