احساس بے بسی کیا نفسیاتی مسائل جنم دیتا ہے ؟

 ہم دنیا میں بیک وقت کئی رشتوں، چیزوں، اور کاموں سے جڑے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اور عوامل ہماری زندگی کے بہت سے پہلوؤں پہ اثر کرتے ہیں۔ اور اکثر ہمیں احساسِ بے بسی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔

احساسِ بےبسی تب جنم لیتا ہے جب حالات ہماری خواہش سے بہت مختلف ہوں اور ان کا مختلف ہونا ہمیں بے چینی، جھنجھلاہٹ اور کبھی کبھی جذباتی تکلیف میں بھی مبتلا کر دیتا ہے۔ جس نوعیت کے حالات ہوتے ہیں اسی شدت کی احساسِ بے بسی ہوتی ہے۔ مثلاً سردی میں کولڈ ڈرنک پینے کی خواہش پوری نہ ہوپانے پہ جو احساسِ بے بسی ہوگا وہ اس سے بہت مختلف ہوگا جو بیماری میں دوا تک رسائی نہ رکھ پانے پہ ہوگا۔

کچھ حالات میں ہمیں یہ ماننا ضروری ہے کہ ہم ہر وقت ہر کام اپنی خواہش کے مطابق نہیں کر سکتے۔ اور محدود اختیار ہونے میں کوئی بری بات نہیں۔ لیکن کچھ مسائل میں ان حالات پہ قابو پانا اور ان کا حل بہت ضروری ہو جاتا ہے۔ خاص طور سے جہاں مسئلہ آپ کی بقاء کا ہو۔ وہ بقاء کئی پہلوؤں کی حامل ہوسکتی ہے۔ یعنی کبھی آپ مادی اشیاء تک رسائی نہ ہونے پہ احساسِ بے بسی محسوس کرتے ہیں اور کبھی اپنے لیے فیصلے کا اختیار نہ ہونے پہ، کبھی یہ احساسِ بے بسی تب محسوس ہوتا ہے جب کوئی ہمارے ساتھ نامناسب رویہ اختیار کرتا ہے لیکن یا تو اس کی معاشرتی حیثیت یا آپ کی کوئی معاشرتی زمہ داری کی وجہ سے آپ اس کے غلط رویے پہ کوئی ردعمل نہیں دے پاتے یا اسے روک نہیں پاتے۔

اس قسم کا احساس اکثر تب ہوتا ہے جب ہم کسی ابیوسیو یا پرتذلیل تعلق میں ہوں۔ وہ چاہے ہمارے والدین کی طرف سے ہو، بہن بھائیوں کی طرف سے، شریک حیات کی طرف سے، باس کی طرف سے یا دوستوں کی طرف سے۔ اور کچھ حالات میں اولاد کی طرف سے بھی ممکن ہے۔

یہ احساسِ بے بسی ہمیں شدید جذباتی اذیت کا شکار کر دیتا ہے۔ اگر یہ احساسِ بے بسی مستقل ہو تو یہ کئی نفسیاتی مسائل کو جنم دے سکتی ہے۔

 کبھی کبھی یہ احساسِ بے بسی مسلسل اعصابی تناؤ کا شکار رکھتی ہے اور بتدریج ہماری شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے۔ پھر حالات بدل بھی جائیں تو ہم خود کو بہت بے بس محسوس کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہم اپنی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکتے جب تک دوسرے لوگ نہ بدل جائیں۔ یہ احساس ہمیں ڈپریشن کی طرف لے جاسکتا ہے۔ مسلسل ایک مایوسی کی کیفیت طاری رہتی ہے کیوں کہ ہمیں کسی بھی فیکٹر پہ اختیار محسوس نہیں ہوتا۔

ہر قدرتی احساس کی طرح یہ احساس بھی وقتی ہو تو پریشانی کی بات نہیں بلکہ یہ ہمیں موقع دیتا ہے کہ جب ہم کسی وجہ سے بے بسی محسوس کر رہے ہیں تو اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اس سچویشن کا مشاہدہ کریں۔ پھر یا تو ان حالات کو قبول کرلیں یا اگر ضروری ہے تو ان حالات کو مثبت انداز میں بدلنے کے اقدامات کرسکیں۔

لیکن جب یہ احساس مسلسل طاری رہنے لگے تو یہ ہماری روزمرہ کی زندگی اور تعلقات پہ اثر کرنے لگتا ہے۔ ہم یا تو مکمل طور پہ اپنی زندگی کو حالات کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیتے ہیں۔ یا پھر ہم اس احساس کو ختم کرنے کے لیے دوسروں کی زندگی میں دخل اندازہ شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دوسروں کو اپنی مرضی سے چلانے کے باوجود اگر آپ کا احساسِ بے بسی آپ کے نفسیاتی مسائل کا شاخسانہ ہے تو کئی لوگوں پہ اختیار رکھتے ہوئے بھی آپ خود کو بہت کمزور اور بے اختیار شخص محسوس کریں گے۔ اپنے مرضی کے خلاف ہوئے چھوٹے چھوٹے کاموں پہ بھی ہم شدید ذہنی اذیت کا شکار ہو جائیں گے اور دوسروں پہ مزید سخت رویہ مسلط کرنا شروع کردیں گے۔

والدین اساتذہ اور باس کا، اولاد، شاگرد یا ماتحت کی غلطی پہ انہیں صفائی کا موقع نہ دینا اور ان کے جواب کو نافرمانی سمجھنا اسی احساس بے بسی کا ردعمل ہے۔

جب تک ہم اپنی ذات پہ اختیار بڑھانے پہ کام نہیں کریں گے تب تک ہم یا تو دوسروں کو اپنی ذات پہ اختیار دیتے رہیں گے یا زبردستی دوسروں کی ذات پہ خود حاکم بننے کی کوشش کریں گے۔

جب ہم ایک دفعہ جان جاتے ہیں کہ ہمارا احساسِ بے بسی ہماری اندرونی وجوہات کاشاخسانہ ہے تو ہم ناصرف ان وجوہات پہ کام کرنا شروع کرتے ہیں بلکہ یہ مشاہدہ کرنا شروع کرتے ہیں کہ ہمارا اختیار ہماری زندگی کے کن کن عوامل پہ اب بھی ہے۔

پھر ہم یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ ہمارا اختیار جن عوامل پہ نہیں ہے ان پہ ہونا چاہیے یا نہ ہونا بھی ٹھیک ہے یا جزوی اختیار ہے۔ مثال کے طور پہ میرے لیے میرے لباس کے انتخاب پہ کون سے عوامل اثر کر رہے ہیں؟

مجھے خود کیسا لباس پسند ہے؟

میرے گھر والوں کی طرف سے مجھے وہ لباس منتخب کرنے کی اجازت ہے؟

میرے معاشرے میں وہ لباس قابل قبول ہے؟

میں کس موسم میں وہ لباس پہننا چاہتی ہوں کیا وہ مجھے موسم کی شدت سے بچائے گا؟

یہاں آپ مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ کچھ جگہ میرا اختیار جزوی ہے۔ یعنی اگر میں سردی میں کسی تقریب کے لیے سلک کی ساڑھی پہننا چاہوں اور کسی گرم کمرے میں رہوں تو میں باآسانی پہن سکوں گی۔ لیکن اگر مجھے گھر والوں کی طرف سے ساڑھی پہننے کی اجازت نہیں ہے تو مناسب موسم میں بھی نہیں پہن سکوں گی۔ موسم کی شدت اور گھر کی طرف سے اجازت نہ ہونا دونوں طرح کی بےبسی الگ احساس دے گی۔ یہاں اگر میں اپنا جزوی اختیار استعمال کرنا چاہوں تو میں یہ دیکھ سکتی ہوں کہ کس قسم کی ساڑھی گھر والوں کے لیے قابلِ قبول ہوسکتی ہے۔

یہ صرف ایک مثال ہے۔ ہم روز اپنے لیے کئی فیصلے کر رہے ہوتے ہیں مگر اس کا ادراک نہیں کرپاتے۔ اور چند بڑے بڑے فیصلوں میں دوسروں کا اثر ہمیں احساسِ بےبسی میں مبتلا کرتا ہے۔ اور وہ ہماری شخصیت پہ اتنا حاوی ہوجاتا ہے کہ ہم جزوی اختیار حاصل کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتے تاکہ بتدریج مکمل اختیار حاصل کرسکیں۔ یا سمجھ سکیں کہ کن حالات میں ہمارے پاس اختیار نہ ہونا ہی ضروری ہے۔ مثال کے طور پہ میں جہاز میں بیٹھی ہوں اور جہاز ٹربیولینس سے گزر رہا ہے۔ میں شدید بےبسی محسوس کر رہی ہوں کہ میں نہ جہاز سے اتر سکتی ہوں نہ خود جہاز اڑا کے اسے محفوظ مقام تک پہنچا سکتی ہوں۔ مگر اس صورت حال میں محدود اختیار ہونا منطقی ہے۔ یہاں میں کیا کرسکتی ہوں؟ مجھے اس پہ توجہ رکھنی ہے کہ یہ کام جس کے اختیار میں ہے وہ اپنا کام کر رہا ہے۔ مجھے اپنے اعصاب کو پرسکون رکھنے پہ توجہ رکھنی ہے۔

یہ اور اس سے ملتے جلتے بہت سے حالات ایسے پوتے ہیں جہاں ماحول میں ہم احساسِ بےبسی محسوس کرتے ہیں۔ وہاں ہماری توجہ مکمل ماحول بدلنے سے زیادہ انفرادی سطح پہ اپنے سکون کی طرف مرکوز کرنی ہے۔ اگر ہم کسی اہم معاشرتی مسئلے کی وجہ سے پریشان ہیں تو بھی احساسِ بے بسی کے ساتھ اسے حل کرنا ممکن نہیں۔ انفرادی سطح پہ اس احساس سے نکل کر اجتماعی سطح پہ تبدیلی کی کوشش ہی آپ کو مثبت تبدیلی تک لے جاسکے گی۔

مجموعی طور پہ نتیجہ دیکھا جائے تو احساسِ بےبسی بذات خود منفی احساس نہیں یہ وقتی قدرتی احساس ہے۔ لیکن اگر ہم نے مستقل طور پہ اسے اپنی زندگی میں جگہ دے دی تو ہم کئی طرح کے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اگر کوشش کے باوجود آپ اس احساس سے نہیں نکل پارہے تو بہتر ہے کہ ماہر نفسیات سے رجوع کریں جو آپ کو بتدریج آپ کے احساسِ بےبسی کی وجوہات سمجھنے میں مدد کرے اور نکلنے کے لیے رہ نمائی کرسکے۔

ابصار فاطمہ

  • Imtiaz

    بہت شاندار تحریر ہے۔احساس سے بھرپور۔امید ہے کہ آپ ایسے موضوعات پر لکھتی رہیں گی

  • Mudasir Hussain

    Mery sath be kuch iss tarah ka issue hai ap Kiya help krsakti hai iss Mai meri

Leave a Reply to Mudasir Hussain Cancel Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top