اب مارل بولے گا(قسط 3)
مارل بہت کچھ دیکھ رہا تھا۔ کچھ اسے سمجھ آتا تھا اور بہت کچھ وہ سمجھے بغیر دیکھ بھی رہا تھا اور جھیل بھی رہا تھا۔
وہ بارہ دری میں کھڑا پہاڑی سے نیچے گزرتے سندھو دریا کو دیکھ رہا تھا۔ سورج ڈھل رہا تھا اور کچھ میر بحر اپنی آبی اشیانوں کو کھیتے بہاؤ کی مخالف سمت جارہے تھے ان میں سے ہی ایک ملاح سر سامونڈری میں شاہ لطیف کا کلام اونچی آواز میں گاتا جارہا ہے۔ کچھ ہی دیر پہلے یہاں محفل سجی ہوئی تھی۔ وہاں بھی شاہی راگی شاہ سائیں کا کلام سر سامونڈری ہی گا چکے تھے۔ مگر ملاح کی آواز میں ایک استحقاق تھا۔ جیسے اسے بات کا فخر ہو کہ سُر اس کے لیے ہی تخلیق کیا گیا ہے۔ فضا میں ملاح کے گیت اور چپوؤں کی پانی میں غوطے لگانے کی آوازیں مدھر آہنگ کے ساتھ بتدریج بڑھتے بڑھتے معدوم ہونے لگیں۔
مارل کی نظریں بہت دور تک کشتیوں کا تعاقب کرتی رہیں اور پھر کناروں پہ آکر ٹک گئیں جہاں سندھو چھلکنے کو بےتاب لگ رہا تھا۔ اس نے سنا تھا سندھو کی موجیں ہر کچھ سال بعد قربانی مانگتی ہیں تبھی اس کی روانی رہتی ہے۔ اسے نہیں پتا تھا کہ اس کے اندر کا سندھو اگر چھلکا تو کتنی قربانیاں لے گا۔ مگر اسے یہ اندازہ تھا کہ اس کی قربانی یقینی ہے۔
—————
گھر پہ وقتاً فوقتاً شروع ہو جانے والی بحثوں کا اثر یہ ہوا کہ اب تقریباً روز ہی اس کی اور نور علی کی بات چیت تلخ کلامی پہ ختم ہونے لگی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ وہ گاؤں کی زندگی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جان سکے اور نور علی کو لگتا تھا کہ وہ گاؤں میں چلتے مسائل پہ اسے قصور وار ٹہرا رہی ہے۔
وہ بے دھیانی میں اپنی میز پہ بیٹھی بال پوائنٹ کی نب کبھی کھولتی تھی کبھی بند کرتی تھی۔ جنوری کی سرد خاموش دوپہر میں پین کھلنے بند ہونے کا شور پورے کمرے میں گونج رہا تھا لیکن اس کے دماغ میں مچلتے شور کے درمیان یہ آوازیں شاید بالکل ہی غیر اہم تھیں کہ وہ انہیں خود تک رسائی کا موقع ہی نہیں دے رہا تھا۔
وہ پچھلے دو ماہ سے اتنے شدید ذہنی دباؤ میں آگئی تھی کہ کبھی کبھی نہ چاہتے ہوئے بھی اس لمحے کو کوستی جب نور علی نے جذبات کو الفاظ دئیے تھے۔ انہی الفاظ کو جن کی منتظر وہ مہینوں سے تھی۔
“فئیری۔۔۔۔۔ فئیری۔۔۔۔۔”
شمائلہ کی آواز پہ اسے احساس ہوا کہ وہ اکیلی نہیں ہے۔ اس نے پین میز پہ رکھ دیا۔ کیوں کہ شمائلہ کی نظریں اس کے پین پہ ہی تھیں۔ وہ شاید کام کرتے ہوئے توجہ نہیں رکھ پارہی تھی۔
“تم کب واپس آئیں؟” اسے تھوڑی حیرت ہوئی کہ اسے شمائلہ کے آنے پہ پتا کیوں نہیں چلا۔
“کہاں سے واپس؟”
“لنچ سے یار.”
“محترمہ میں گئی کب تھی کھانے کے لیے؟”
فرزانہ نے لاعلمی والے انداز میں کندھے اچکائے۔
“آپ کو اپنے مجنوں سے فرصت ملے تو احساس ہو کہ باقی دنیا میں کیا چل رہا ہے۔” شمائلہ کے لہجے میں دوستانہ شرارت تھی۔ وہ ابھی تک اپنی سوچوں کے اثر میں تھی کہ مسکرا بھی نہیں سکی۔
“خیریت ہے؟ نور علی سے کوئی جھگڑا ہوا کیا؟”
” نہیں جھگڑا تو نہیں کہہ سکتے، اور اس کی وجہ سے میں پریشان ہوں بھی نہیں۔ یہ بحثیں ایک طرح سے ہمارے تعلق کا حصہ ہیں۔”
“یہ وہ والا فلسفہ ہے کہ لڑائی سے محبت بڑھتی ہے۔؟” شمائلہ نے خفیف سا قہقہہ لگایا۔
“نہیں اس مطلب میں نہیں۔ میرا مطلب ہے کہ ہم ہر موضوع پہ بات کر سکتے ہیں۔ اگر بحث میں ایک دوسرے سے متفق نہ بھی ہوں تو ایک دوسرے کے جذبات کے حوالے سے شک میں نہیں پڑتے۔”
“یہ تو اچھی بات ہے۔ بیٹا ایسے میاں قسمت والیوں کو ملتے ہیں جن سے بات کی جاسکے۔ تمہیں تو میاں کی آفر میں دوست مفت مل رہا ہے۔”
شمائلہ کے لہجے میں پرخلوص ستائش تھی۔ ان دونوں کو اس سرکاری ادارے میں ساتھ کام کرتے ہوئے تیسرا سال تھا۔ فرزانہ کی نوکری کو سات سال ہونے والے تھے شمائلہ اس سے نسبتاً سینئیر تھی۔ وہ چالیس سالہ، شادی شدہ عورت تھی۔ اس کی شخصیت میں واضح محسوس ہونے والا گھریلو سا احساس تھا۔ جو اکثر یہاں کے سرکاری اداروں خاص طور سے تعلیم سے متعلق محکموں میں موجود اکثر خواتین میں محسوس ہوتا ہے کہ اگر آپ ان سے ان کے آفس سے باہر کہیں ملیں تو کبھی نہ جان سکیں کہ یہ “ورکنگ ویمن” ہیں۔ بلکہ شاید وہ نوکری والی ہوتی بھی اسی لیے ہیں کیوں کہ نوکری سرکاری ہے۔
شمائلہ نے فرزانہ کو اپنی شادی کی جو تصاویر دکھائی تھیں ان سے احساس ہوتا تھا کہ وہ اس وقت ایک خوش شکل، خوش پوش لڑکی رہی تھی۔ لیکن اب شادی کے تقریباً تیرہ سال کے بعد اس کے چہرے پہ مستقل تھکن کے احساس نے نقوش میں اپنی جگہ بنا لی تھی۔ جسے وہ صبح صبح سفید فیس پاوڈر اور کاسنی لپ اسٹک سے کسی قدر مدھم کرنے میں کامیاب ہوجاتی تھی لیکن چھٹی کا وقت آنے تک مٹا مٹا سا میک اپ اسے مزید تھکن زدہ بنا دیتا تھا۔ اس وقت بھی اس کی لپ اسٹک قدرے مٹ چکی تھی اور بولتے ہوئے ہونٹوں کا اصل رنگ اندرونی گوشوں سے جھلک رہا تھا۔
نور علی اور فرزانہ کا رومان شمائلہ کے سامنے ہی اپنے رنگ بدلتا یہاں تک پہنچا تھا۔
فرزانہ بہت غور سے شمائلہ کو بولتے دیکھ رہی تھی لیکن اس کا دماغ اپنے مسئلے میں ہی الجھا ہوا تھا۔ اسے مناسب لگا کہ وہ اس حوالے سے شمائلہ سے مشورہ کرلے۔
“تم بتاؤ! تمہارے خیال میں ہمارے گھریلو ماحول اور زبان کا فرق ہمارے آپس کے تعلق پہ بھی اثر کر سکتا ہے؟” فرزانہ کا لہجہ بتا رہا تھا کہ وہ چاہتی ہے شمائلہ اسے سب اچھا ہونے کا کہہ دے۔
“ہاں کر تو سکتا ہے، بلکہ اکثر گھروں میں کرتا ہے۔ تمہارے والدین شاید اسی لیے پریشان ہیں کیوں کہ ایسی شادیاں اکثر جھگڑوں کی نظر ہی ہوجاتی ہیں۔ دونوں فریقین تعلق کو اپنی روایات کے مطابق چلانا چاہتے ہیں۔” شمائلہ نے بہت واضح رائے دی۔
” یار یہ مسئلے تو ہر شادی میں ہوتے ہیں۔ تمہاری شادی تو اپنے خالہ زاد سے ہوئی ہے پھر بھی خالہ کو گلہ ہے کہ تمہیں ان کے گھر کے طور طریقے نہیں آتے۔” یہ شاید فرزانہ کے اعصاب کی کشیدگی تھی کہ وہ شمائلہ کا نکتہ سمجھے بغیر کسی قدر کج بحثی کی طرف چلی گئی۔
“تم مجھے ایک دفعہ ذرا تفصیل سے بتاو کہ تمہارے کیا تحفظات ہیں۔ ضروری نہیں کہ میرے پاس ہی حل ہو لیکن شاید بات کرکے تم خود مسئلے کو بہتر سمجھ سکو۔”
فرزانہ نے پر سوچ انداز میں سر ہلایا۔
“یار، مجھے شاید خود بھی یہ بات واضح نہیں کہ مجھے کس حوالے سے تحفظات زیادہ ہیں، یہ کہ وہ سندھی ہے، یہ کہ وہ گاؤں میں رہتا ہے یا یہ کہ وہاں پندرہ بیس سالوں سے ایک ہی شخص الیکشن جیتتا ہے۔”
“مطلب تم سنجیدہ ہو؟ تمہیں اس بات کی فکر ہے کہ وہاں الیکشن کون جیتتا ہے؟ سخت سے سخت معیار رکھنے والے بھی رشتہ کرتے ہوئے یہ نہیں پوچھتے کہ جی آپ کے محلے اور علاقے میں الیکشن کس نے جیتا تھا۔”
” نہیں یار مطلب میں اپنا نکتہ نہیں بتا پائی شاید، اور شاید خود سمجھ بھی نہیں پارہی، مجھے یہ بات کچھ عجیب لگتی ہے کہ نور علی کو اپنے علاقے کے مسائل کی شاید کوئی پروا نہیں۔”
شمائلہ نے کسی قدر ترحم آمیز نظروں سے فرزانہ کو دیکھا۔
“تم واقعی غیر اہم مسائل پہ سوچ سوچ کے خود کو تھکا رہی ہو۔ تمہارا تعلق نور علی سے ہے۔ کسی قدر اس کے گھر والوں سے ہوگا۔ بلکہ اس کی بیٹی سے۔ میں تو ابھی تک یہی سمجھ رہی تھی کہ تم اس حوالے سے پریشان ہو کہ ایک چار سال کی بچی کو کیسے سنبھالو گی وہ بھی سوتیلی بیٹی۔”
“یار میرا نہیں خیال کہ مومل کو سنبھالنا میرے لیے کوئی خاص مسئلہ ہوگا مجھے بچے پسند ہیں۔”
“عام بچوں میں اور سوتیلی اولاد میں بہت فرق ہوتا ہے۔” شمائلہ نے اسے جتایا۔
“یار، وہ تب ہوتا ہے جب یا تو سوکن زندہ ہو جو بچاری نہیں ہے۔ یا پھر آپ گھر میں اپنی حیثیت منوانے کے لیے بچوں سے مقابلہ بازی پہ اتر آئیں یا اس مقابلے بازی پہ مجبور کر دیا جائے۔”
” تو تمہیں نہیں لگتا کہ تمہیں اس حوالے سے زیادہ پریشان ہونا چاہیے کہ تمہیں اس مقابلے بازی پہ مجبور نہ کردیا جائے۔ تم بیٹھ کے یہ سوچ رہی ہو کہ وہاں سیاسی مسائل کیا ہیں۔”
” دو مہینے پہلے جب نور علی نے مجھ سے بات کی تھی تب میں اتنی پریقین تھی کہ اگر امی ابو کو اعتراضات نہ ہوتے تو اب تک کوئی رسم ہو ہی چکی ہوتی۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے میں کنفیوز ہورہی ہوں۔ امی ایک طرف یہ چاہتی ہیں کہ میری فوراً شادی ہوجائے اور وہ پچھلے دو سال سے یہی چاہ رہی ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ میری شادی ہی انعم اور فروا کی جلد کامیاب شادی کی ضمانت ہوگی۔ دوسری طرف وہ یہ ڈر رہی ہیں کہ گاؤں کا ماحول پتا نہیں کیسا ہو؟۔ مطلب سوچو ذرا انہیں اس بات سے زیادہ کہ میں خوش رہوں گی یا نہیں اس بات کی فکر ہے کہ میں نہاؤں دھوؤں گی کیسے۔”
“تم نے بتایا نہیں وہاں بہت سارے کھیت ہوتے ہیں۔” شمائلہ نے عمومی انداز کا بچکانہ سا مذاق کیا۔ پھر کچھ سنجیدہ ہوکے بات آگے بڑھائی
” دیکھو جلد بازی میں کوئی فیصلہ مت کرنا، جو کرو سوچ سمجھ کے کرو۔”
فرزانہ اس کی بات سن کے کچھ لمحوں کے لیے چپ ہوئی۔ جیسے بکھری سوچوں میں سے موزوں سوچ ڈھونڈ رہی ہو۔
“جلد بازی کی اچھی کہی، طلاق کے بعد سے لگنے لگا ہے کہ اب لوگ میری عمر تین سے ضرب دے کر دیکھنے لگے ہیں۔ نور علی سے کم از کم ذہنی ہم آہنگی تو ہے۔ اس سے شادی کا معاملہ اگر ختم ہوا ناں تو امی اگلے دو تین مہینوں میں کسی کے ساتھ بھی چلتا کردیں گی۔ اور یہ بات مجھے اور جھنجھلاہٹ میں مبتلا کر رہی ہے کہ میں اس معاملے کو مکمل آزادی کے ساتھ نہیں نمٹا سکتی۔”
“تم زیادہ ٹینشن لے رہی ہو، یہ بھی تو سوچو کہ ہمارے یہاں مطلقہ لڑکی کے والدین پہ کتنا پریشر ہوتا ہے۔ پھر یہ خوف الگ کہ دوبارہ پچھلا والا حال نہ ہو۔”
“یار تمہیں کیا لگتا ہے مجھے اس بات کا احساس نہیں؟ بلکہ ان سے زیادہ خوف مجھے ہے اصل تو جو کچھ بھگتا ہے میں نے بھگتا ہے اور دوبارہ کچھ غلط ہوا تو بھی مجھے ہی بھگتنا پڑے گا۔ پچھلی بار بھی ان لوگوں نے اپنی منطقیں سنا سنا کے مجھے ایک ایسے بندے کے لیے راضی کیا تھا جسے میں تو کیا یہ خود بھی ٹھیک سے نہیں جانتے تھے۔ نتیجہ تمہارے سامنے ہے۔ اب بھی والدہ محترمہ چھوٹتے ہی کہتی ہیں مجھے نباہ کرنا چاہیے تھا۔ بہنوں کا خیال کرنا چاہیے تھا۔ یعنی انہیں لگتا ہے میں نے کوشش ہی نہیں کی۔ ” شدت جذبات سے فرزانہ بولتے بولتے رک گئی۔
” دفع کرو یار۔ بعد میں بات کرتے ہیں۔” پھر خود ہی بات ختم کرکے فائل کھول کے مگن ہونے کی کوشش کرنے لگی۔
کئی دن یونہی گزر گئے۔ نور علی اور فرزانہ معمول کے مطابق لنچ پہ جاتے ادھر ادھر کی باتیں کرتے اور لوٹ آتے۔ دیکھنے میں سب ٹھیک تھا لیکن یہ مصنوعی کیفیت دونوں کے اعصاب کو تڑخا رہی تھی۔
گھر پہنچ کے بھی وہ زیادہ وقت بلاوجہ آفس کے کاغذات میں سر دئیے گزار دیتی تھی۔ اسے پتا تھا کہ اسے کیا فیصلہ لینا ہے۔ لیکن اس ایک فیصلے سے بندھے اور کئی چھوٹے بڑے فیصلے تھے جو اسے کرنے تھے لیکن اسے لگتا تھا جیسے سب کچھ دھند میں لپٹا ہوا ہے۔ کچھ واضح دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
**
حسب معمول وہ گھر میں داخل ہوئی تو داخلی حصے میں رکھی چوکی خالی تھی جہاں اکثر اس وقت امی ہیٹر چلا کے بیٹھی ہوتی تھیں۔ ہیٹر کا پائپ کچن سے نکل کر ڈرائنگ روم تک جا رہا تھا۔ امی اور ہیٹر دونوں کی تلاش میں وہ ڈرائنگ روم کی طرف بڑھ گئی۔ اندر پہنچ کے اندازہ ہوا کہ ابو کے تایا زاد بھائی اپنی بیگم کے ساتھ موجود تھے۔ اسے اندازہ ہو ہی گیا کہ ان کی آمد کا مقصد کیا ہوگا۔ ان کی سب سے بڑی بیٹی کا رشتہ طے ہوئے کچھ مہینے ہوگئے تھے اور سن گن یہی تھی کہ شادی کی تاریخ پکی ہونے والی ہے۔
میز پہ چائے کے کپس کے ساتھ ایک طرف کئی شادی کارڈز ایک شاپنگ بیگ میں رکھے تھے اور ایک شادی کارڈ ابو کے سامنے رکھا تھا۔
اس نے ایک نظر میز پہ ڈالی اور آگے بڑھ کے دونوں میاں بیوی کو سر کے مبہم اشارے کے ساتھ سلام کیا۔ اول تو وہ کافی تھکی ہوئی تھی دوسرا یہ کہ اسے اندازہ تھا کہ جب سے یہ آئی ہوں گی کس نوعیت کی بات چیت چل رہی ہو گی۔ وہ فوراً واپسی کے لیے مڑی۔
“آؤ ناں بیٹا! ہمارے پاس بیٹھو ابھی آفس سے آئی ہو؟ پانچ بجے ہوتی ہے ناں چھٹی؟ بڑی دیر لگ گئی آتے آتے۔” احسان انکل نے ہر دفعہ کا پوچھا سوال دوبارہ دہرایا۔ اسے اس قسم کے سوال و جواب سے انتہائی درجے کی الجھن ہوتی تھی۔
دل چاہا کہہ دے جی انکل رستے میں بھالو کا تماشا دیکھنے رک گئی تھی۔ لیکن چپ چاپ مسکرا کر خالی صوفے پہ بیٹھ گئی۔
” شکیل بھائی ماشاء اللّٰہ آپ کی یہ بیٹی تو بیٹا ہے آپ کا۔ آپ کا آدھا بوجھ اٹھا لیا۔ بس خدا امتحان لیتا ہے تو کہیں نہ کہیں کچھ اجر بھی دیتا ہے۔”
ریحانہ آنٹی کی طنزیہ تعریف پہ وہ مزید جھنجھلا گئی۔ اسے غصہ صرف آنٹی اور احسان انکل کی طنزیہ گفتگو پہ نہیں آتا تھا بلکہ اس بات پہ آتا تھا کہ امی ابو مجرموں کی طرح صفائیاں پیش کرنے لگتے تھے۔ اور وہی ہوا امی کا جواب اور لہجہ انتہائی عاجزی بھرا تھا۔
“ارے یہ تو بس وقت گزاری کے لیے ان کے ابو نے اجازت دے دی۔ گھر میں رہ رہ کر تو اور بندہ چڑچڑا ہی ہوجاتا ہے۔ باہر نکلتی ہے دو بندوں سے بات کرتی ہے تو جی ہلکا ہوجاتا ہو گا۔ ورنہ آج بھی پہلے کی طرح ان کے ابو مہینے کا الگ جیب خرچ دیتے ہیں اسے۔ کہ اسے احساس نہ ہو۔”
وہ سر جھکا کے ہلکے سے مسکرائی۔ احساس تو انہوں نے دلا ہی دیا اور دلاتی رہتی ہی ہیں۔ وہ اب منتظر تھی کہ ریحانہ آنٹی کب آج کے ہاٹ ٹاپک پہ آتی ہیں۔ یا ممکن ہے اس پہ بات پہلے ہی ہوچکی ہو۔ لیکن ان کے جانے کے بعد امی کا بی پی ہائی ہونا پکا تھا۔ خیر وہ کچھ نہ بھی کہتیں تو شادی کا کارڈ ہی امی کی طبیعت خراب کرنے کے لیے کافی تھا۔ ان دونوں کے نکلتے ہی فرزانہ نے امی کی طرف دیکھا پھر کہا۔
” انعم! ان کی بی پی کی دوا لے آؤ ۔ انتظار کرنے کا فائدہ۔”
“ہاں مجھے دوائیں کھلاتی رہو جیسے سارا مسئلہ ہی میرے بی پی کا ہے۔ احسان کی بڑی بیٹی بھی ہماری فروا سے پانچ مہینے چھوٹی ہے۔ اور بتاتی تو خیر ریحانہ سال بھر چھوٹا کرکے ہے۔ تین سال سے اس کے رشتے بھی آرہے تھے۔”
بات وہاں پہنچ ہی گئی جس کااسے پہلے ہی اندازہ تھا۔
“امی لوگ تو اپنی بچیوں کی تیرہ سال کی عمر میں بھی شادی کردیتے ہیں۔”
“اول تو ریحانہ کی لڑکی تیرہ سال کی نہیں ہے بائیس سال کی ہے۔ دوسرا جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس کا چلن بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ اگر سب تیرہ سال میں بیٹی بیاہ رہے ہیں اور ہم پندرہ سال تک بٹھائیں گے تو پھر کوئی رشتہ ملے گا ہی نہیں۔ ”
ان کا جھگڑا بڑھتا دیکھ کر انعم اور فروا پہلے ہی کمرے سے جا چکی تھیں۔ ابو خاموشی سے بیٹھے ان کی نوک جھونک دیکھ رہے تھے۔ یاسر اس وقت گھر میں ہوتا ہی نہیں تھا اس کی جاب سے چھٹی سات بجے ہوتی تھی۔ عمر یاسر کی بھی تقریباً تیس سال ہوچکی تھی لیکن امی کی تمام تر توجہ بیٹیوں کے بے بیاہے اور اس سے بھی زیادہ بڑی بیٹی کے مطلقہ ہونے پہ تھی۔
“تو کردیں ان کی شادیاں مسئلہ کیا ہے؟ مجھے سنانے سے کیا ملتا ہے آپ کو؟”
“جیسے تمہیں پتا ہی نہیں کہ تم سے کیا تعلق ہے ساری بات کا۔” اب امی کے لہجے سے اندازہ ہورہا تھا کہ ان کا بی پی ہائی ہورہا ہے۔
فرزانہ چند لمحوں تک امی کو دیکھتی رہی جو غصے سے اسی ہی گھور رہی تھیں اور تیز تیز سانس لے رہی تھیں۔ پھر اٹھ کے ان کے کمرے سے بی پی کی دوا لائی گلاس میں پانی بھرا اور دونوں چیزیں انہیں پکڑادیں۔
“کیوں تنگ کرتی ہو بیٹا۔” امی نے گولی کھا کے دو گھونٹ پانی پیا پھر بولیں۔ ان کے لہجے میں بے چارگی تھی۔
“امی جان بوجھ کے تو نہیں کرتی۔ خود دیکھیے کیا فیصلہ کرنا اتنا ہی آسان ہی جتنا آپ کہتی ہیں؟ آپ سے ایک طلاق نہیں سہی جارہی جلد بازی میں اگلی بار بھی یہی نتیجہ نکلا تو کیا کریں گی؟”
“لاحول ولا قوۃ ۔۔۔۔ بولنے سے پہلے سوچتی ہو کہ نہیں بس جو اول فول منہ میں آیا بول دیا۔ اللہ نہ کرے کہ دوبارہ ایسا ہو۔”
” امی اللہ نہیں کرے گا، نہ پہلے اللہ نے غلط فیصلہ کروایا تھا۔ پہلے بھی آپ لوگوں نے بہت سی سامنے کی باتیں نظر انداز کردی تھیں۔ اب بھی یہی چاہ رہی ہیں۔ یعنی ہر دفعہ آنکھیں بند کرکے گڑھے میں چھلانگ بھی لگائیں اور یہ بھی چاہیں کہ ہڈی نہ ٹوٹے۔”
امی نے جواب دینے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ اس بار ابو بول پڑے۔
” بس ختم کرو فضول بحث، ہر دو دن بعد تم لوگ یہی بحث لے کے بیٹھی ہوتی ہو۔ اور تمہیں لگتا ہے کہ تمہیں اماں ابا سے زیادہ سمجھ ہے تو خود بہتر فیصلہ لے لو۔” بظاہر ابو نے بات ختم کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا مؤقف بھی امی سے زیادہ مختلف نہیں تھا۔ امی بھی چپ ہی رہیں، انہیں پتا تھا کہ اس معاملے میں میاں ان ہی کی زبان بولیں گے۔
پہلے اس نے سوچا کوئی جواب دے۔ کچھ لمحے ابو کو دیکھتی رہی پھر پلٹ کے اپنے کمرے میں چلی گئی۔
کمرے میں جاتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا کہ نور علی کو کال کرکے کہا کہ اب رشتہ لانے کے حوالے سے اپنے گھر والوں سے بات کرلے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔